السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بازار میں سادہ ٹون والے موبائل فون دستیاب ہیں، لیکن بعض لوگ ایساموبائل خریدتے ہیں جس میں میوزک والی ٹون بھی ہوتی ہے، پھر اس میں کیمرہ بھی ہوتا ہے جس سے بخوبی فوٹواتاراجاسکتاہے ،کیاایسافون خرید کراستعمال کرناجائز ہے ، بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ دوران جماعت ہی موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہو جاتی ہے جس سے دوسرے نمازیوں کے خشوع میں خلل آتا ہے ،اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موبائل فون دورحاضر کی ایک نئی ایجاد ہے جس کافائدہ یہ ہے کہ انسان ہروقت رابطہ میں رہتا ہے ،اسے انتظار کی زحمت نہیں اٹھاناپڑتی، لیکن اس کے فائدہ کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بہت زیادہ ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے شراب اورجوئے کے متعلق فرمایا کہ’’ ان دونوں میں بڑاگناہ ہے اورلوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔‘‘ [۲/البقرہ:۲۱۹]
تجربات نے ثابت کیا ہے کہ یہی معاملہ موبائل فون سے متعلق ہے، کیونکہ ا س میں فوائد بھی ہیں، لیکن جسمانی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اوردینی نقصانات اس کے فائدے کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں ،جیسا کہ درج ذیل تفصیل سے واضح ہے۔
٭ جسمانی نقصانات :جوڈاکٹردماغی رسولیوں کے ماہر ہیں ان کی رپورٹ کے مطابق موبائل فون بکثرت استعمال کرنے سے قوت سماعت سے متعلق عصب میں ٹیومبر رسولی ہونے کا خطرہ دوسروں کے مقابلہ میں دوگناہوجاتاہے ،نیز ان کاتجزیہ ہے کہ سیل فون کے تابکاری اثرات کے نتیجہ میں خوردبینی جراثیم پیداہوجاتے ہیں جوکینسر کی ابتدا کاباعث ہیں۔ا س کے برقی مقناطیسی اثرات کے تحت دماغ کے خلیات کونقصان پہنچتا ہے جس کے نتیجہ میں دماغ سے متعلق ایسی بیماریاں پیداہوتی ہیں جن کاعلاج فی الحال ناممکن ہے ،اس کے کثرت استعمال سے حافظہ کمزور، قوت فکر متاثر ہوتی ہے اوردماغ کی نشوونما بھی رک جاتی ہے۔
٭ معاشی نقصانات:ہمارے ہاں موبائل فون ضرورت سے تجاوز کرکے ایک فیشن کی صورت اختیارکرچکاہے ۔گھر میں جتنے افراد ہیں ،ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہرایک کے پاس ذاتی موبائل ہو۔اس میں تین صد یاچھ صد روپے کاکارڈ ڈالاجاتاہے جسے ایک ہی نشست میں فضول گپ شپ لگاتے ہوئے ختم کر دیا جاتا ہے۔ جوآدمی اسے ضروریات کے بجائے فضولیات میں لے جاتا ہے وہ اس کے بغیرگزار انہیں کرسکتا ،بلاوجہ اس کے ذریعے مال کاضیاع ہے جس کاکوئی معقول مصرف نہیں ہے ،شوق فضول اس کے ذریعے پوراکیاجاتا ہے۔
٭ معاشرتی نقصانات :کیمرہ موبائل فون کے ذریعے گلی کوچوں میں جانے والی عورتوں کے فوٹوآسانی سے بنائے جاسکتے ہیں، پھرانہیں مختلف پوز میں ڈھالنے کی سہولت موبائل میں موجودہوتی ہے ۔اس قسم کی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرکے معاشرہ کوتباہ کیاجارہا ہے ،سعودی گورنمنٹ نے اس قسم کے موبائل فون پرپابندی لگارکھی ہے، جبکہ ہماری روشن خیال حکومت اس قسم کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
٭ اخلاقی نقصانات :فون میں میوزک اورموسیقی ہوتی ہے ،پھر اس میں گانے بھرنے کی سہولت موجودہوتی ہے، نیز محدود پیمانے پروڈیوفلم بنائی جاسکتی ہے ،فحش گانوں اورمخرب اخلاق فلموں سے ہماری نسل کے اخلاق متاثر ہوتے ہیں ۔اس کااحساس آیندہ چندسالوں میں ہوگا جب پانی سرسے گزرچکا ہوگا ۔
٭ دینی نقصانات:بعض اوقا ت جنازہ پڑھاجاتاہے ،اس دوران موبائل کی گھنٹی بجناشروع ہوجاتی ہے جوگانے کی دھن پرسیٹ کی ہوتی ہے ،اس سے جنازہ کاتسلسل اوروقتی خشوع بھی رخصت ہوجاتا ہے، بعض اوقات مسجد میں بھی گانوں کی دھنیں بکھرناشروع ہوجاتی ہیں ،بہرحال ا س فون نے مسجد کے تقدس اورنماز کے خشوع وخضوع کوختم کردیا ہے ،اس لئے ہم موبائل فون کے مخالف نہیں،بلکہ اس کے غلط استعمال کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سامان موسیقی کے متعلق آج سے چودہ سوسال قبل خبردار کیا ہے ۔آپ نے فرمایا :’’اس امت میں بھی دھنسنے ،شکلیں بگڑنے اورپتھر وں کی بارش برسنے کے واقعات ہوں گے۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایساکب ہوگا ؟آپ نے فرمایا:’’ جب گلوکارعام ہوجائیں گے، آلات موسیقی رواج پاجائیں گے ،شراب نوشی کی برسرعام محفلیں ہوں گی ۔‘‘ [ترمذی ،الفتن :۲۲۱۲]
اس حدیث کی روشنی میں آلات موسیقی ،اس کے متعلق دیگرذرائع کی حرمت اوران کے خطرناک نتائج سے ہمیں آگاہ کیاگیا ہے۔ مساجد میں موبائل کی گھنٹیاں کھلی رکھنا جن میں موسیقی کی دھنیں ہوں اللہ کے عذاب کودعوت دینا ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اوران کی نمازاللہ کے پاس صرف سیٹیاں بجانا اورتالیاں پیٹنا تھی، ان سے کہاجائے گا کہ اب اپنے کفر کی پاداش میں دردناک عذاب کامزہ چکھو ۔‘‘ [۸/الانفال :۳۵]
واضح رہے کہ اگرموبائل فون کی گھنٹی مسجد میں آتے وقت بند نہیں کی جاسکی اوروہ دوران نماز بجنے لگے تواسے نکال کر بندکردینے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے صحیح استعمال کی توفیق دے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب