السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نیشنل بنک آف پاکستان کی طر ف سے سونے کے زیورات پرقرضہ دیاجاتاہے اس پربنک سود بھی وصول کرتا ہے، ان زیورات کی گارنٹی کے لیے بنک کی طرف سے ایک زرگر مقررہوتا ہے جوبنک سے توکچھ وصول نہیں کرتا البتہ قرضہ والوں سے زیورات کی گارنٹی کے عوض کچھ فیس وصول کرتا ہے بنک کی طرف سے یہ ڈیوٹی اور گارنٹی پرفیس کی وصولی شرعاًکیاحیثیت رکھتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں بیان ہے کہ لوگوں پرایساوقت آجائے گاکہ کوئی بھی سود کی لعنت سے محفوظ نہیں رہے گا ، اگر کوئی سودنہیں لے گا تواس کے غبارودھواں سے ضروردوچارہوگا ۔ [ابن ماجہ ،التجارات :۲۲۷۸]
چنانچہ آج ہماری یہی کیفیت ہے، اس کامصداق سوال میں ذکر کردہ صورت میں دیکھا جاتا ہے کہ بنک والوں نے لوگوں کوپھانسے کے لئے کیاکیاصورتیں پیداکررکھی ہیں ،بنک زیورات کی گارنٹی پرلوگوں کوسوددیتا ہے ۔لیکن زیورات کے معیار اوراس کی مقدار کے لئے ایک آدمی مقررہے جوبنک سے توکچھ وصول نہیں کرتا لیکن زیورات والوں سے اس گارنٹی کے عوص فیس وصول کرتا ہے، گویابنک جب قرضہ جاری کرتا ہے تواس زرگر کی شہادت پردیتا ہے کہ ان زیورات کامعیار یہ ہے اورمقداراتنی ہے یعنی گارنٹی دینے والا بنک اورقرضہ لینے والے کے درمیان ایک واسطہ ہے اور اس کی گواہی پرقرضہ جاری ہوتا ہے ،اب ہم حدیث پرغورکرتے ہیں کہ ایساکام کرنے کے متعلق کیاوعید ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے سودکھانے والے،کھلانے والے ،لکھنے والے اوراس کے متعلق گواہی دینے والے پرفرمایاکہ یہ سب جرم میں برابرکے شریک ہیں ۔‘‘ [صحیح مسلم ،المساقاۃ :۴۰۹۳]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان ہے کہ’’ سودکھانے ،کھلانے والا،اس کی گواہی دینے اسے ضبط تحریر میں لانے والا یہ سب قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے لعنت زدہ ہوں گے بشرطیکہ دیدہ ودانستہ ایساکام کرتے ہوں۔‘‘[مسندامام احمد، ص: ۴۳۰، ج۱]
ان احادیث کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ سودی معاملات میں گواہی دینے والا بھی سودخوری کے جرم میں برابر کاشریک ہے، صورت مسئولہ میں سودی سلسلہ میں گواہی کی ایک شکل ہے، لہٰذا اس کاروبار کو ترک کر دیناچاہیے ،اس کے علاوہ قرآن کریم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ’’تقوی اوربھلے کاموں میں ایک دوسرے کاتعاون کرو،گناہ اورزیادتی والے معاملات میں کسی کاتعاون نہ کرو۔‘‘ [۵/المائدہ :۲]
درج بالاصورت بھی گناہ اورنافرمانی میں بنک کاتعاون کرناہے، ہمارے ہاں بنکاری نظام کی بنیاد سود پر ہے، اس لئے اس کے ساتھ ہرقسم کاتعاون شرعاًممنوع ہے ،لہٰذاایک مسلمان کو دنیا کی بجائے اپنی آخرت کی فکر ہونی چاہیے، یہ دنیا کاسازوسامان تو دنیا میں ہی رہ جائے گا ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب