السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کس فرقہ پرکاربند رہنے کاحکم دیا ہے، جبکہ قرآن کریم میں توفرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے، نیز یہ بھی آگاہ فرمائیں کہ کس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 73فرقوں کاذکر کیا ہے؟
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمارانام مسلمان رکھاہے اورہمیں فرقہ بندی سے بھی سختی کے ساتھ منع کیاہے۔ تو پھرکیاوجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اہل حدیث کہلاتے ہیں۔کیااہل حدیث ایک فرقہ نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن پاک میں ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کسی خاص فرقہ پرکاربند رہنے کاحکم نہیں دیا ،بلکہ اس سلسلہ میں ہدایت جاری کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کومضبوطی سے تھام لو اورتفرقہ میں نہ پڑو۔ [۳/آل عمران :۱۰۳]
حبل اللہ، یعنی اللہ کی رسی سے مراد اللہ کی کتاب اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ومعمولات ہیں ۔جب تک امت ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رکھے گی ،کبھی گمراہی سے دوچار نہیں ہوگی ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ،اگرتم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تودنیاکی کوئی طاقت تمہیں گمراہ نہیں کرسکے گی ۔وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اورمیراطریقہ ہے ۔‘‘ [مستدرک حاکم ،العلم :۳۱۹]
فرقہ سازی ،فرقہ پروری اورفرقہ پرستی سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :’’تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جوفرقوں میں بٹ گئے اورروشن دلائل آنے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے۔‘‘ [۳/آل عمران :۱۰۵]
نیز فرمایا کہ’’ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اورکئی فرقوں میں تقسیم ہوگئے ،ان سے آپ کوکوئی سر وکار نہیں ،ان کامعاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔‘‘ [۶/الانعام :۱۶۰]
آیت کریمہ میں ’’لوگوں سے مراد یہود ونصارٰی ہیں جونفسانی خواہشات اورحصول اقتدار کی بنا پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے اورایک دوسرے کوکافر کہنے لگے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہودی اکہتر(71) فرقوں میں اور نصارٰی بہتر(72) گروہوں میں بٹ گئے۔ آخرکارمیری امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخی ہوں گے۔‘‘ عرض کیاگیاکہ وہ نجات یافتہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’جواس راستہ پرچلیں گے جس پر میں اورمیرے صحابہ رضی اللہ عنہم گامزن ہیں ۔ ‘‘ [ترمذی ، الایمان :۲۶۴۱]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد کوئی اختر اعی عقیدہ یاخود ساختہ عمل ہوتا ہے ۔ لہٰذامسلمان کو اس بات کی تحقیق کر لینی چاہیے کہ اس کاکوئی عقیدہ یاعمل ایساتونہیں ہے جوعہد رسالت اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں پایا جاتا ہو ۔ اگرکسی عقیدہ یا عمل کا ثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا تواسے سمجھ لیناچاہیے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ’’ دین کوقائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ [۴۲/الشوریٰ :۱۳]
واضح رہے کہ لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ، اس لئے نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی ابہام یاسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی الجھن ہے۔ جس کی لوگوں کوپوری طرح سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کی اصل وجہ اپنا اپنا جھنڈا اونچا کرنے کی خواہش یامال وجاہ کی طلب ہوتی ہے، پھراس کے بعد باہمی ضد اورایک دوسرے کوزک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں جولوگوں کودین کی کشادہ راہ اورسیدھے راستہ سے ہٹاکر مختلف پگڈ نڈیوں پرڈال دینے کاباعث ہوئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ان لوگوں میں فرقہ بندی اس وقت پیداہوئی جب وہ ضدباز ی پراترآئے، حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس علم وحی آ چکا تھا ۔‘‘ [۴۲/الشوری :۱۴]
الحمدللہ !جماعت اہل حدیث کے منہج اورطرز عمل میں فکر وعقیدہ اورعمل وکردار کے اعتبار سے کوئی کجی نہیں ہے ،کیونکہ یہ لوگ اس دین کوتھامے ہوتے ہیں،جن پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم عمل پیراتھے ان کی شناختی علامت یہ ہے :
اصل دین آمد کلام اللّٰہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجان مسلم داشتن
جماعت اہل حدیث کے عقیدہ وعمل کودرج ذیل حدیث کی روشنی میں دیکھاجاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کاایک گروہ ہمیشہ اللہ کے احکام کوقائم رکھے گا۔ان کی تکذیب کرنے والے یاانہیں رسواکرنے والے ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے حتیٰ کہ جب قیامت آئے گی تویہ لوگ احکام الٰہی پرکاربند ہوں گے۔‘‘ [صحیح بخاری :۷۴۶۰]
یہی وہ اجنبی لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبارک باددی ہے :’’کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جومیرے اس طریقہ کی اصلاح کرتے ہیں جسے مختلف لوگوں نے خراب کر دیاہوگا۔‘‘ [ترمذی ،الایمان :۲۶۳۰]
جماعت اہل حدیث کے افراد عملی کوتاہی کاشکار توہوسکتے ہیں لیکن من حیث الجماعت فکروعمل کی کوتاہی سے محفوظ ہیں ،باقی رہااہل حدیث نام کامسئلہ تویہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ یہ ایک لقب ہے جواصحاب الرائے اورروافض سے ممتاز ہونے کے لئے اختیارکیاگیاہے ۔اگرچہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ’’ اس سے قبل ازیں بھی تمہارانام مسلم رکھاتھا اوراس (قرآن کریم )میں بھی مسلم ہی رکھا ہے۔‘‘ [۲۲/الحج :۷۸]
تاہم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو’’مہاجرین اورانصار‘‘ کے لقب سے بھی یاد فرما یا ہے ۔ [۹/التوبہ :۱۰۰]
متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوان کی صفات کی وجہ سے مہاجر وانصار میں تقسیم فرماکر ان کی طرف منسوب کردیااس سے معلوم ہواکہ جس فردیاجماعت میں کوئی خاص امتیازی وصف ہوتومسلمین میں شمولیت کے باوجودان صفات کی طرف ان کاانتساب کوئی معیوب چیز نہیں ہے اورنہ ہی اسے بدعت کہاجاسکتا ہے ۔اہل حدیث لقب کے جائز ہونے پرمحدثین کرام اور تمام سلف صالحین کااجماع یہی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر چودھویں صدی ہجری کے نصف تک کسی نے بھی اس لقب کوبدعت نہیں کہا، پھرحدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’تم مسلمین کوان کے ناموں کے ساتھ پکاراکرو۔اللہ تعالیٰ نے ان کے نام مسلمین، مؤمنین اورعباداللہ رکھے ہیں۔‘‘[مسندامام احمد، ص: ۱۳۰، ج۴]
اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کردینے والے کو’’مسلم‘‘ کہاجاتا ہے ۔اس لحاظ سے ہرنبی پرایمان لانے والی قوم مسلم ہی تھی ۔اس اعتبار سے ہم بھی مسلم ہیں لیکن جب اس مسلم قوم میں بدعات کارواج ہواتو امتیازی طورپرانہیں اہل حدیث یا اصحاب الحدیث کہاجانے لگا۔ گویامسلم ذاتی اوراہل حدیث ایک صفاتی نام ہے۔اہل رائے اوراہل بدعت کے مقابلہ میں اہل حدیث کالقب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخرہم لوگ اپنی پہچان کے لئے اپنے نام الگ رکھ لیتے ہیں توبحیثیت جماعت اہل حدیث صفاتی نام رکھنے میں کیاقباحت ہے ۔اس حدیث کی مخالفت کرنے والوں کوچاہیے کہ وہ کم ازکم اپنے پیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی بات ہی مان لیں۔آپ فرماتے ہیں کہ اہل السنہ کانام اہل حدیث ہے ۔ [غنیۃ الطالبین مترجم فارسی، ص: ۲۱۲]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب