السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ادارہ ’’اہل حدیث‘‘ کی معرفت کالج کی ایک طالبہ کاخط موصول ہوا ہے جس میں اپنے دینی جذبات کابایں الفاظ اظہارکیاگیا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کابہت شوق ہے لیکن صنف نازک ہونے کی وجہ سے اس سعادت کوحاصل نہیں کر سکتی، نیز میرے والد گرامی جہاں میرارشتہ کرناچاہتے ہیں وہاں دینی لحاظ سے مطمئن نہیں ہوں ،اس ذہنی الجھن سے نجات حاصل کرنے کے لئے مجھے کیاکرناچاہیے۔کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنااللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑااعزاز ہے، بلکہ شہادت کی تمناکرناایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سعادت کوحاصل کرنے کے لئے بایں الفاظ اپنی خواہش کااظہار فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جاؤں، پھرمجھے زندگی مل جائے، پھراللہ کی راہ میں کٹ جاؤں ،پھر زندہ کیاجائوں ،پھراللہ کی راہ میں شہیدہوجاؤں ،پھرمجھے زندگی دی جائے، پھراللہ کے راستہ میں اپنی جان کانذرانہ پیش کروں ۔‘‘ [صحیح بخاری ،الجہاد:۲۷۹۷]
عورتوں کے لئے جہاد میں شرکت کے لئے کئی ایک مواقع ہیں، لیکن ان کاشریک ہوناضروری نہیں ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی توآپ نے فرمایا کہ’’ تمہار اجہادبیت اللہ کاحج کرناہے۔‘‘ [صحیح بخاری ، الجہاد :۲۸۷۵]
اللہ کے دین میں عورتوں کے اس جہاد ’’حج بیت اللہ ‘‘کی اس قدراہمیت ہے کہ ایک آدمی جس نے غزوہ میں شرکت کے لئے نام لکھوا رکھا تھا، اسے واپس کردیاگیا کیونکہ اس کی عورت حج کرناچاہتی تھی۔ [صحیح بخاری ،الحج :۱۸۶۲]
اس پرفتن دورمیں عورتوں کوچاہیے کہ گھرمیں چاردیواری میں رہتے ہوئے ،فرائض و واجبات کی پابندی کریں ۔چادر اور چار دیواری کاتحفظ ہی ان کے لئے جنت کی ضمانت ہے ۔کتب احادیث میں شہادت کی کئی ایک صورتیں بیان کی گئی ہیں۔اگرنیت خالص، ایمان کامل اور یقین صادق ہے تواللہ تعالیٰ شہادت کاشوق رکھنے والی عورتوں کواس سعادت سے محروم نہیں کرے گا۔ اب ہم سوال میں پیش کردہ ذہنی الجھن کا حل پیش کرتے ہیں۔
رشتۂ ازواج دنیاکابہت حساس اورانتہائی قیمتی بندھن ہے، اس لئے اس کے ہرنازک پہلوپر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرکے سرانجام دینا چاہیے۔ اسے عام حالات میں ایک بارہی اداکیاجاتا ہے۔ بجلی کے بلب کی طرح نہیں ہے،کہ جب جی چاہے اتارکردوسرالگادیاجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جوراہنما اصول متعین فرمائے ہیں ،اگرانہیں پیش نظر رکھاجائے تو کبھی ناکامی اورخسارے کاسامنانہیں کرناپڑتا ۔ ہمارے ہاں عام طورپر نکاح کے لئے مال و متاع ،حسن وجمال، حسب ونسب کودیکھا جاتا ہے، جبکہ شریعت کی نظر میں یہ چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اس سلسلہ میں اولیت اورترجیح دین واخلاق کوحاصل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’نکاح کے لئے عورت کی چار چیزوں کو دیکھاجاتا ہے، یعنی اس کامال ،خوبصورتی ،خاندانی حسب ونسب اوراسلامی اقدار وغیرہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ دین داری کوترجیح دے کرکامیابی حاصل کرے۔‘‘ [صحیح بخاری ، النکاح : ۵۰۹۰]
جولوگ دین کونظرانداز کرکے دیگر معیارزندگی دیکھتے ہیں ،وہ جلدہی اس کے بھیانک انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں کیونکہ ’’بلند معیار‘‘ کی تلاش میں بیٹوں کواپنے گھر کی دہلیز پربوڑھا کردیاجاتاہے۔ اس کے بعد فتنہ وفساد کے علاوہ کیامل سکتا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:
’’جب تمہارے پاس دین واخلاق کاحامل رشتہ آئے تونکاح کردو ،بصورت دیگر فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘[ترمذی، النکاح: ۱۰۸۵]
نکاح کے سلسلہ میں نہ تووالد کوکلی اختیارات ہیں کہ وہ جہاں چاہے اپنی بیٹی کواعتماد میں لئے بغیر اس کانکاح کر دے اور نہ ہی عورت مطلق العنان ہے، کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے چاہے نکاح کرلے بلکہ جہاں سرپرست کویہ اختیاردیاگیا ہے کہ اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، وہاں اسے پابندبھی کیاگیاہے کہ نکاح سے پہلے وہ بیٹی یابہن کواعتماد میں لے ۔امام بخاری رحمہ اللہ جو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں اوران کی مصالح عباد پربڑی گہری نظرہوتی ہے۔ اس کے ساتھ سا تھ وہ استدلال میں نصوص کاپہلو بھی انتہائی مضبوط رکھتے ہیں۔ نکاح کے سلسلہ میں انہوں نے بہت متوازن راہنمائی کی ہے۔ وہ سوال میں ذکرکردہ ذہنی الجھن کے حل کے لئے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں ’’جس شخص کایہ موقف ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘اس کامطلب یہ ہے کہ نکاح کے سلسلہ میں ولی سرپرست کوبنیادی حیثیت حاصل ہے، پھرایک دوسراعنوان قائم کرتے ہیں کہ ’’کوئی باپ یاکوئی دوسرا رشتہ دارکسی کنواری یاشوہر دیدہ کانکاح اس کی رضاکے بغیر نہ کرے۔‘‘ ان ابواب کاتقاضا ہے کہ نہ توکھلی آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی رچا لے اورنہ ہی وہ اس قدر مقہورومجبورہے کہ اس کاسرپرست جہاں چاہے جس سے چاہے اس کاعقد کردے بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک تیسراعنوان بیان کرتے ہیں ’’اگرکسی نے اپنی بیٹی یابہن کی مرضی کے بغیرنکاح کر دیا تو یہ نکاح مردود ہے۔‘‘
درحقیقت شریعت اعتدال کوقائم رکھناچاہتی ہے نہ توسرپرست کواتنے وسیع اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اپنی بیٹی یابہن کی مرضی کے بغیر جہاںچاہے جس سے چاہے نکاح کردے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں ایک نکاح ایساہوا توآپ نے بچی کی صوابدیدپرموقوف رکھاکہ اگروہ چاہے تواسے مسترد کردے۔ [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۳۸]
اورنہ ہی عورت کواس قدرکھلی آزادی دی گئی ہے کہ وہ خودسرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کرکے اپنے خاندان کی عزت وآبروکوخاک میں ملا دے۔ ہاں اگرباپ یا دوسرے سرپرست کے متعلق باوثوق ذرائع سے پتہ چل جائے کہ وہ اپنے زیر سرپرست کے لئے مہرووفا کے جذبات سے عاری ہے یا وہ دینی ودنیوی مفادات کامحافظ نہیں ہے تووہ خودبخودحق ولایت سے محروم ہوجاتا ہے۔حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے، چنانچہ بعض روایات میں ولی مرشد کے الفاظ ملتے ہیں۔ [بیہقی،ص:۱۲۴، ج۷]
اس صورت میںحق ولایت خودبخوددوسرے قریبی رشتہ دار کی طرف منتقل ہوجاتاہے اگرتمام سرپرست کسی غلط جگہ پرنکاح کرنے کے لئے اتفاق کرلیں (اگرچہ ایسابہت کم ہوتا ہے ) توگاؤں یاشہر کے سرکردہ اورشریف الطبع لوگوں کی سرپرستی میں نکاح کیاجاسکتا ہے۔اگریہ صورت بھی ناممکن ہوتو بالآخر عدالتی چارہ جوئی میں کوئی قباحت نہیں ۔اگرعدالت دیانتداری کے ساتھ اس نتیجہ پرپہنچے کہ تمام سرپرست نکاح کے لئے کسی غلط کارکاانتخاب کئے ہوئے ہیں توجج کی سرپرستی میں نکاح کیاجاسکتا ہے ،لیکن اگرباپ یاکوئی دوسراسرپرست صحیح جگہ پر نکاح کرناچاہتا ہے لیکن وہاں لڑکی آمادہ نہیں یااپنی کسی غلط کاری کی وجہ سے کسی ایسی جگہ رشتہ کرناچاہتی ہے جوخاندان کے لئے باعث ننگ وعار ہے یا اپنے آشناکے ساتھ بھاگ کرعدالتی چھتری کے نیچے نکاح کرلیتی ہے توایسے حالات میں عدالتی نکاح صحیح نہیں ہوگا۔اس سلسلہ میں ہماراعزیزہ کویہی مشورہ ہے کہ وہ چادر اور چاردیواری کاتحفظ کرتے ہوئے اپنے والد کوکتاب وسنت کے دلائل سے آمادہ کرے کہ نکاح کے متعلق دینی واخلاقی اقدار کو اولیت حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں ازخودکسی رشتہ کی نشاندہی کرنے کے بجائے یہ انتخاب والدین کی صوابدیدپرچھوڑدیاجائے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی مضبوط تعلق قائم کیاجائے اوردعاکرتی رہے کہ وہ اسے دینی لحاظ سے بہترین رفیق حیات عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب