سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(487) برائلر مرغی کی حلت

  • 12506
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2653

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برائلر مرغی، جس کی تخلیق عموماً غیر فطری ہوتی ہے کیا شرعاً حلال ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں برائلر مرغی کی تخلیق کے متعلق غیر فطری ہونے کی وضاحت نہیں کی گئی۔ اگر اس کے غیر فطری ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کے انڈوں کو مرغی کے نیچے نہیں رکھا جاتا بلکہ مشینی آلات کے ذریعے اس کے بچوں کو حاصل کیا جاتا ہے تو اسے غیر فطری نہیں کہا جاتاہے، کیونکہ اس کے حصول کے متعلق طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا ہے، البتہ اس کے متعلق تدریجی عمل وہی ہو تا ہے جو مرغی کے نیچے رکھنے سے ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عام طور پر مرغی اکیس دن کے بعد انڈوں سے بچے نکالتی ہے، مشینی طریقہ کار سے بھی اکیس دن درکار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو مشہور ہے کہ مشینی طریقہ سے بچے ایک دن میں نکل آتے ہیں یہ غلط ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جیسا کہ عوام میں یہ بات بھی غلط مشہور ہے کہ حضرات حواء gابتدائی طور پر ایک بچہ صبح اور ایک بچہ شام کو جنم دیتی تھی، اس مفروضے کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، دراصل موجودہ سائنس نے جدید آلات سے معلوم کیا ہے کہ مرغی کے نیچے انڈے رکھنے سے روزانہ کتنی گرمی درکار ہو تی ہے جس سے اکیس دن بعد بچے نکل آتے ہیں، گرمی کی یہی مقدار مشینی ذرائع سے انڈوں کو یومیہ دی جاتی ہے اور اکیس دن کے بعد بچے نکل آتے ہیں۔ چونکہ بچے نکلنے اور انڈے مشین میں رکھنے کا عمل روزانہ جاری رہتا ہے۔ اکیس دن کے بعد جن انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے انڈے رکھ دیے جاتے ہیں اس سے عوام میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ فارمی مرغیوں کی تخلیق غیر فطری ہے۔ حیوانات میں آج کل افزائش نسل کے مصنوعی طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر گائے سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کے لئے مصنوعی بار آوری کا طریقہ اختیار کیا جاتاہے۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، البتہ عورتوں کا بانجھ پن دور کرنے کے لئے مصنوعی طریقے سے اولاد پیدا کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس کے بعض طریقے شرعاً جائز نہیں ہیں، البتہ حیوانات کو اس طرح کے مصنوعی مراحل سے گزارنا جائز اور مباح ہے۔ مرغیوں کے متعلق ابھی تک کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہو ا جسے عمل میں لا کر طبعی طریقہ سے ہٹ کر ان سے انڈے حاصل کئے جاسکیں، البتہ انہیں ایسی خوراک ضرور دی جاتی ہے جس کے استعمال سے انڈے دینے کے عمل میں تعطل نہیں آتا، بلکہ وہ مسلسل انڈے دیتی رہتی ہیں۔ پھر ان مرغیوں کی دو اقسام ہیں، ان میں کچھ حصول گوشت کے لئے ہوتی ہیں اور کچھ کو انڈوں کے لئے رکھا جاتاہے۔ انڈوں والی مرغیوں میں مرغ ہوتے ہیں جن سے وہ انڈے دینے کے قابل ہوتی ہیں۔ جب وہ انڈے دینا بند کردیتی ہیں تو انہیں گوشت کے طور پر استعمال کیا جاتاہے، اس قسم کی مرغیو ں کو لیئر کہتے ہیں۔ مرغیوں کی دوسری قسم وہ ہے جو صرف گوشت کے لئے ہو تی ہے انہیں برائلرکہا جاتاہے، وہ پیدائش سے چالیس دن تک گوشت کے لئے تیار ہو جاتی ہیں، جب وہ چوزے انڈوں سے برآمد ہو تے ہیں ماہرین کی مدد سے ان میں نر، مادہ کی تمیز کردی جاتی ہے مادہ چوزوں کو ایسی خوراک دی جاتی ہے جس سے وہ گوشت کے لئے جلدی تیار ہو جاتی ہیں۔ اس خوراک میں کچھ حرام اجزا کی آمیزش ہوتی ہے، مثلاً: مردار کا گوشت،ذبیحہ کا خون اور جانوروں کی ہڈیاں وغیرہ، لیکن ان حرام اجزا پر مشتمل خوراک استعمال کرنے سے ان کی حلت متاثر نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ حیوانات حلال و حرام کے مکلف نہیں، چنانچہ امام بخاری  رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’مرغی کے گوشت‘‘ کے متعلق ایک عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے تحت وہ ایک واقعہ لائے ہیں۔ حضرت زھدم کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  کے پاس تھے، قبیلۂ جرم کے لوگ بھی وہاں موجود تھے اور ہمارا اس قبیلہ سے بھائی چارہ تھا۔ انہیں کھانا پیش کیا گیا، اس میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ اس قبیلہ کا ایک آدمی کھانا کھانے کے بجائے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے پوچھا گیا کہ آپ کے اس طرز عمل کی کیا وجہ ہے؟ اس نے وضاحت کی کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا ہے ، اس لئے اسے پسند نہیں کرتاہوں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس لئے تمہیں بھی تکلف سے کام نہیں لینا چاہیے۔     [صحیح بخاری، الذبائح:۵۱۵۱۸]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیوانات وغیرہ اس کے مکلف نہیں ہیں کہ وہ حلال غذا استعمال کریں۔ الغرض حلال جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، خواہ اسے حرام اجزا پر مشتمل خوراک دی جائے، اس لئے صورت مسئولہ میں برائلر مرغی کا گوشت حلا ل ہے اور اس کی تخلیق غیر فطری نہیں۔ اگر دل نہ چاہے تو کسی کو کھانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:476

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ