السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ اہلحدیث میں ’’احکام و مسائل‘‘ کا کالم دل چسپی، اشتیاق اور التزام کے ساتھ پڑھتا ہوں اور اس سے مستفید بھی ہوتا ہوں۔ اس میں دینی سوالات کے جوابات نہایت محنت،کدوکاوش اور گہری تحقیق سے لکھے جاتے ہیں، ہمیں ان دنوں ایک مسئلہ در پیش ہے، وہ یہ کہ میری اس وقت عمر اسی سال سے متجاوز ہے۔ میں اور اہلیہ دونوں شدید خرابی صحت میں مبتلا ہیں، ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق کھانا تیار کرنے اور اسے پیش کرنے کے لئے کوئی مسلمان مرد یا عورت دستیاب نہیں ہو سکا۔ مجبوراً ہم نے ایک عیسائی عورت کو اس کام کے لئے ملازم رکھا ہے۔ فیملی کے کسی فرد نے اعتراض کیا ہے کہ اس کے ہاتھوں تیار کیا ہوا کھانا جائز نہیں، اس سلسلہ میں ہماری شرعی راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو صحت کاملہ و عاجلہ عنایت فرمائے، یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آپ کو ضرورت کے مطابق کھانا تیار کرنے والا کوئی مسلمان مرد یا عورت باورچی نہیں مل سکا۔آپ نے مجبوراً کسی عیسائی عورت کی خدمات حاصل کی ہیں، ہمارے ملک میں عیسائی مرد یا عورت دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اپنی نظافت و طہارت کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انہیں گندگی اٹھانے اور نالیاں وغیرہ صاف کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے اوردوسرے وہ ہیں جو عیسائی ہونے کے باوجود صفائی، نظافت اور طہارت کاخیال رکھتے ہیں، پہلی قسم کے عیسائی سے ہر انسان کو کراہت ہوتی ہے، صورت مسئولہ میں یقینا دوسری قسم سے کسی عیسائی عورت کا انتخاب کیا گیا ہوگا۔ اہل کتاب کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلا ل ہے اور تمہارا کھاناان کے لئے جائز ہے۔‘‘ [۵/المائدہ:۴]
لفظ طعام اپنے عموم کے اعتبار سے ہر قسم کے کھانے کے لئے استعمال ہو ا ہے، اگرچہ اکثر مفسرین نے اس کا معنی ذبیحہ کیا ہے۔ جب ان کا کھانا استعمال کیا جاسکتاہے اور ان کا ذبیحہ بھی کام میں لایا جاسکتا ہے تو ان کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز کھانے میں کیا امر مانع ہے۔ اگر عیسائی عورت طہارت و نظافت کا خیال رکھتی ہے تو اسے گھر میں کھانا وغیرہ تیارکرنے کے لئے ملازم رکھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودیہ عورت کے ہاں کھانا تناول فرمایا تھا، کھانے میں پیش کردہ بکری کے گوشت میں یہودیوں نے زہرملا دیا تھا۔ اس کی تفصیل احادیث میں موجود ہے۔ [ صحیح بخاری، المغازی:۴۲۴۹]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اہل کتاب کا کھانا تناول کرنا اور ان کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔[فتح الباری، ص:۶۲۳،ج۷]
گھر کا باورچی گھر کا بھیدی ہو تاہے ۔ اس اعتبار سے کر سچن عورت پر کڑی نظر رکھی جائے، اس کا عیسائی ہونا کھانا وغیرہ تیار کرنے اور اسے پیش کرنے کے لئے کوئی مانع امر نہیں ہے۔ البتہ راز داری، دیانت اور نظافت و طہارت کے پہلو کو ضرور دیکھ لینا چاہیے، شرعی طور پر اس مشروط اجازت کے باوجود کسی مسلمان باورچی کی تلاش جاری رکھنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب