السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اعتکاف کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا معتکف کے لیے قضائے حاجت، کھانے پینے اور علاج معالجے کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے؟ اعتکاف کی سنتیں کیا ہیں؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اعتکاف کی صحیح صورت کس طرح مروی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کے لیے خلوت نشین ہونے کے لیے مسجدوں میں جم کر بیٹھ جانا اعتکاف ہے اور وہ لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے مسنون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اس طرح اشارہ فرمایا ہے:
﴿وَلا تُبـشِروهُنَّ وَأَنتُم عـكِفونَ فِى المَسـجِدِ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تو ان سے مباشرت نہ کرو۔‘‘
صحیحین اور دیگر کتب حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اعتکاف فرمایا تھا اور بعد میں بھی اعتکاف کا حکم باقی رہا منسوخ نہیں ہوا۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ اورآپ ﷺ کے صحابہ کرام نے اعتکاف کیا فرماتی ہیں:
«أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللّٰهُ ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ» (صحيح البخاري، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر، ح: ۲۰۲۶، وصحيح مسلم، الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر من رمضان، ح: ۱۱۷۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف فرمایا۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف فرمایا، پھر فرمایا:
«اِنِّیْ اعْتَکَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ أَلْتَمِسُ هٰذِهِ اللَّيْلَةَ (يَعْنِی لَيْلَةَ الْقَدْرِ) ثُمَّ اعْتَکَفْتُ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ، ثُمَّ اَتَيْتُ فَقِيْلَ لِی: اِنَّهَا فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ اَحَبَّ مِنْکُمْ اَنْ يَعْتَکِفَ فَلْيَعْتَکِفْ» (صحيح البخاري، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر، ح: ۲۰۲۷، وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث علی طلبها، ح: ۱۱۶۷ واللفظ له)
’’میں نے اس رات (یعنی لیلۃ القدر) کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میں اعتکاف کے لیے جب آیا تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ رات تو آخری عشرے میں ہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہیے وہ اعتکاف کر لے۔‘‘
پس لوگوں نے آپ کے ساتھ اعتکاف کیا۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ علماء میں سے کسی نے اعتکاف کے مسنون ہونے کے بارے میں اختلاف کیا ہو گویا کہ اعتکاف نص اور اجماع کی روشنی میں مسنون ہے۔ اعتکاف ایسی مساجد میں ہونا چاہیے جن میں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾(البقرۃ: ۱۸۷) ’’اس حال میں تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو‘‘ کے عموم کا یہی تقاضا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جس میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہو تاکہ اسے نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد سے نکلنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اگر اس نے کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کر لیا جس میں جمعہ کا اہتمام نہیں، تو پھر اس کے لیے دوسری مسجد میں نماز جمعہ کے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
معتکف کو چاہیے کہ وہ اللہ عزوجل کی اطاعت و بندگی، نماز تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی میں مشغول رہے کیونکہ اعتکاف سے یہی مقصود ہے۔ ساتھیوں سے تھوڑی سی بات چیت کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں، خصوصاً جب کہ اس میں کوئی فائدہ بھی ہو۔ معتکف کے لیے جماع اور اس کے مقدمات حرام ہیں اور مسجد سے نکلنے کی فقہاء نے حسب ذیل تین اقسام بیان کی ہیں:
(۱) کسی ایسے امر کے لیے باہر نکلنا جائز ہے، جس کے بغیر شرعاً یا طبعاً چارئہ کار نہ ہو، مثلاً: نماز جمعہ اور کھانے پینے کے لیے نکلنا جبکہ کوئی اور لانے والا نہ ہو، نیز وضو وغسل اور بول و براز کی حاجت کے لیے نکلنا اس کے لئے جائز ہے۔
(۲) کسی ایسے نیک کام کے لیے نکلنا جو اس کے لیے واجب نہ ہو، مثلاً: بیمار کی بیمار پرسی اور نماز جنازہ کے لیے نکلنا۔ یہ اس صورت میں جائز ہے جب اس نے اعتکاف کی ابتدا میں اس کی شرط عائد کر لی ہو اور اگر اس نے ایسی شرط عائد نہ کی ہو تو پھر ایسے کاموں کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔
(۳) کسی ایسے کام کے لیے جو اعتکاف کے منافی ہو، مثلاً: گھر جانے کے لیے، خریدو فر وخت کے لیے اور بیوی سے جماع کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے، خواہ اس نے اس کی شرط عائد کی ہو یا شرط عائد نہ کی ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب