السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس وقت موبائل فون کا ایک عام رواج ہے۔ بعض اوقات دوران نماز اسے بند نہیں کیا جاتا وہ اطلاعی گھنٹی کے موقع پر بجنا شروع ہو جاتا ہے جس سے نماز کا خشوع متاثر ہو تا ہے۔ اب الجھن یہ ہے کہ اگر اسے دوران نماز بند کردیا جائے تو یہ عمل نماز کے منافی معلوم ہو تا ہے اور اگر اسے بند نہ کیا جائے تو اپنی او رجماعت کی صورت میں دوسرے نمازیوں کی توجہ قائم نہیں رہتی، کیا اسے دوران نماز بند کیا جاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موبائل فون دور حاضر کی ایک مفید ایجا د ہے۔بشرطیکہ اسے استعما ل کرتے وقت اس کے آداب و شرائط اور تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں ضروریات سے تجاوز کرکے یہ موبائل فضولیات میں قدم رکھ چکا ہے۔ بلا شبہ نماز اللہ کے ساتھ مناجات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے نماز میں کامل توجہ اور خشوع و خضوع کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے اور ہر ایسے عمل کا سد باب ہونا چاہیے جو نماز میں خلل کا باعث ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے موبائل کو کم از کم اس کی اطلاعی گھنٹی کو بند کردیا جائے اگرکوئی نمازی اپنا موبائل یا اس کی گھنٹی بند کرنابھول جائے اور دوران نماز اس کی اطلاعی گھنٹی بجنا شروع ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ اس کے لئے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاا سوہ دیکھنا ہوگا۔نماز کے متعلق مروی احادیث کا تقاضا ہے کہ انسان دوران نماز کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے منافی ہو، لیکن بعض اوقات نمازی کسی مصلحت یا ضرورت کے پیش نظر دوران نماز کوئی نقل و حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جو بظاہر نماز کے منافی ہو تی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ دوران نماز اس طرح کی حرکت کی حدود وشرائط کو بیان کردیا جائے۔چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ضرورت کے پیش نظر اپنی صحیح میں ایک بڑا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’نماز میں کوئی کام کرنے کا بیان۔‘‘ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوران نماز افعال کا تتبع کرتے ہوئے تقریباً32احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھارہ کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کئے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے کاموں کی تحدید مشکل ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا عمل ثابت ہے اسے جائز اور اس سے زائد عمل کو نماز کے منافی قرار دیا جائے، ہاں، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے لئے خصوصیت کی دلیل موجود ہو تو اس میں امت کے لئے جواز کا کوئی پہلو نہیں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو پکڑ کر اپنی دائیں جانب کیا جبکہ وہ بائیں جانب کھڑے تھے۔ اس سے معلو م ہوتا ہے کہ نمازی کو دوسرے کی اصلاح کے لئے اپنے ہاتھ سے مدد لینا درست اور جائز ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ نماز کی مصلحت کے لئے دوران نماز اپنے ہاتھ سے مدد لی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز بچھو اور سانپ کو مارنے کی اجازت دی ہے۔ [ابو دائود، حدیث نمبر: ۹۲۱]
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور گھر کا دروازہ بند تھا۔ میں باہر سے آئی اور دروازہ کھٹکھٹایاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نمازچل کر دروازہ کھول دیا، پھر آپ اپنے مقام نماز پر واپس چلے گئے اور گھر کا دروازہ قبلہ کی جانب تھا۔ [ابودائود، حدیث نمبر: ۹۲۲]
ان احادیث کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی نمازی اپنے موبائل کی گھنٹی بند کرنا بھول جائے تو دوران نماز اس کی گھنٹی بجنے لگے تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کردینا جائز ہے اور اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ اس کے جاری رہنے سے دوسرے نمازیوں کا خشوع و خضوع متاثرہوتا ہے اور ان کے لئے خاصی تشویش کا باعث بن جاتا ہے۔ جب نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز اپنے ہاتھ سے کوئی بھی کام کیا جاسکتا ہے تو موبائل بند کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے، اگرچہ احناف نے دوران نماز عمل قلیل کی اجازت دی ہے، پھر عمل قلیل کی حد بندی کی ہے لیکن ہمیں اس طرح کی باریک بینی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، واضح رہے کہ ہمارے ہاں احناف نے دوران نماز موبائل فون بند کرنے کو عمل قلیل ہی قرار دیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب