السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی کچھ رقم چوری ہو گئی، اسے دو آدمیوں پر شبہ تھا جو اس کے پاس آنے جانے والے تھے، اتفاق سے ایک تیسرے آدمی نے حلفیہ بیان دیا کہ جن پر چوری کا شبہ تھا انہوں نے میرے سامنے چوری کا اقرار کیا ہے۔لیکن جب معاملہ کی چھان بین کی گئی تو انہوں نے صاف صاف انکار کردیا کہ ہم نے کسی کے پاس کوئی اقرار نہیں کیا ہے۔ کیا اس تیسرے آدمی کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر مشتبہ آدمیوں پر چوری ڈالی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چوری کا جرم ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملزم اقرار جرم کرے یا دو عادل گواہ ملزم کے ارتکاب جرم کی عینی شہادت دیں۔ صورت مسئولہ میں دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ اقرار کی دھندلی سی ایک شہادت ہے اور وہ بھی انکار بعد از اقرار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔اتنی سی بات سے چوری ثابت نہیں ہو تی۔ اگرایک گواہ کی بھی عدالت ثابت ہو جائے جو چوری کی گواہی کے لئے ضروری ہو تی ہے تو مدعی کی قسم سے فیصلہ ہو سکتا تھا۔لیکن یہاں یہ صورت بھی نہیں، کیونکہ مدعی کس بات کی قسم اٹھائے اور اگر مدعی قسم اٹھانے پر آمادہ بھی ہو جائے تو اس کی کیا بنیاد ہے؟ اگر گواہ کی عدالت بھی مشتبہ ہو اور مدعی کا قسم اٹھانا بھی بے بنیاد ہو تو اتنی سی بات سے جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی تیسرے آدمی کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر مشتبہ آدمیوں پر چوری ڈالی جاسکتی ہے بلکہ صورت مسئولہ میں مدعیان علیہما سے قسم لے کرانہیں بے قصور قرار دینا ہی مناسب معلوم ہو تا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب