السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی مقروض، قرض کی ادائیگی کے وقت قرض خواہ کو قرض سے زیادہ رقم ادا کرے جبکہ پہلے یہ اضافہ طے شدہ نہ ہو تو کیا ایسا کرنا بھی سوداور ناجائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس انسان نے کسی سے قرض لیا ہے اس کے ذمے صرف اتنی ہی رقم واپس کرنا ضروری ہے، خیر خواہی کے طور پر کسی کو قرض دینے کی بہت فضیلت ہے۔ حدیث میں اس فضیلت کی بایں الفاظ وضاحت ہے کہ ’’کوئی بھی مسلمان جب کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرض دیتا ہے تو اس کے ایک مرتبہ صدقہ کرنے کی طرح ہو تا ہے۔‘‘ [ابن ماجہ، الاحکام:۲۴۳۰]
اگر پہلے سے کوئی اضافہ یا فائدہ طے شدہ نہ ہو تو قرض کی رقم سے افضل یا زیادہ دیناجائز ہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ میرا آپ کے ذمے کچھ قرض تھا۔ آپ نے مجھے وہ قرض ادا کیا اور اس سے کچھ زیادہ بھی دیا۔ [صحیح بخاری، الاستقراض:۲۳۹۴]
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کسی شخص کا اونٹ قرض تھا۔ جب وہ شخص اس کا تقاضا کرنے آیا تو آپ نے صحابہ کرام کو اس کی ادائیگی کے متعلق حکم دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا، البتہ اس سے زیادہ عمر کا اونٹ مل گیا۔ آپ نے فرمایا:’’ اسے یہی اونٹ دے دو۔‘‘ اس پر اس شخص نے کہا آپ نے مجھے پورا پورا حق دیا ہے۔ [صحیح بخاری، حدیث: ۲۳۰۵]
بہرحال اگر قرض لیتے وقت کوئی شرط طے نہیں کی گئی تو ادائیگی کے وقت مقروض اپنے قرض سے بہتر یا زیادہ دے سکتا ہے۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ شرح سود طے کرکے اضافہ کے ساتھ رقم واپس کرنا سخت منع ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب