سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(475) بطور ضمانت رقم وصول کرنا

  • 12494
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1235

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ڈیرے پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کی، ہمیں جن لوگوں پر شبہ تھا، سراغ رسانی کے کتوں کے ذریعے ان پر الزام صحیح ثابت ہوا۔جبکہ انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا۔ برادری کے کچھ آدمی ان کی صفائی دینے کے لئے تیار ہوئے ۔ ہم نے ان سے دس آدمیو ں کا انتخاب کیا اور دو لاکھ روپیہ بطور ضمانت رکھ لیا کہ اگر ان میں سے ایک آدمی بھی منحرف ہو تو زرضمانت کو ضبط کرلیا جائے گا۔ اس معاملہ کی شرعی حیثیت کے متعلق وضاحت کریں تاکہ ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی مسلمان کو بلا وجہ مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ، اگر کسی پر شک و شبہ ہو تو اسے ثابت کرنے کے لئے شریعت نے دو چیزوں کا اعتبار کیا ہے۔ ایک یہ کہ ملزم خود اقرار جرم کرے ،یا اس کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے دو گواہ پیش کئے جائیں۔ اگر ملزم کی طرف سے اقرار جرم نہ ہو اور نہ ہی اس کے خلاف دو گواہ پیش کئے جاسکیں تو ملزم قسم اٹھا کر اپنے الزام سے بری ہو سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدعی پر دلیل پیش کرنا لازم ہے اور قسم وہ اٹھائے گا جس نے انکار کیا۔‘‘[بیہقی، ص: ۲۵۲،ج۱۰]

حضرت اشعث بن قیس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں اور ایک آدمی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جھگڑا لے کر گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے ثبوت جرم کے لئے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔‘‘     [صحیح بخاری، الشہادات: ۲۶۶۹]

صورت مسئولہ میں مدعیان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات پر گواہ پیش کریں کہ واقعی فلاں لوگوں نے فائرنگ کی ہے۔ آرمی کے سراغ رسانی کے کتوں کے ذریعے جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں صرف گواہی کی تائید میں پیش کیا جاسکتاہے، کیونکہ ان کتوں کے سونگھنے کی قوت اگرچہ بہت تیز ہوتی ہے، تاہم بعض اوقات ان سے خطا ممکن ہے۔ ایسے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ سراغ رسانی کے کتے تھک ہانپ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ فوجی حضرات نے جہاں بیٹھے تھے انہیں کو جرم میں دھر لیا، لہٰذا کتوں وغیرہ سے جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتیں اور پولیس انہیں تسلیم نہیں کرتے۔ اگرجرم ثابت نہ ہوتو ملزموں سے قسم لی جائے گی اگرچہ ان کی ثقاہت مجروح ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں ایک شخص قتل ہوا، مقتول کے ورثا نے یہو د پر الزام لگایا کیونکہ ان کے علاقہ میں مقتول پایا گیا تھا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم اس پر گواہ پیش کرو کہ واقعی انہوں نے قتل کیا ہے یا پھر یہودیوں میں سے پچاس آدمی قسم اٹھا کر اس الزام سے بری ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہود کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کردی تاکہ مسلمان کا خون ضائع نہ ہو۔ [صحیح بخاری ، حدیث نمبر: ۲۷۰۲]

لیکن ملزمان کی بجائے دوسروں سے قسم لینا اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے آدمی ان سے قسم لے کر ان کی طرف سے صفائی دے سکتے ہیں لیکن ان کی جگہ پر وہ قسم اٹھائیں اس کا ثبوت محل نظر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:465

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ