سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(470) بچوں کی اصلاح کی خاطر ٹی وی رکھنا

  • 12489
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 970

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے گھر میں ٹی، وی نہیں ہے اور نہ ہی میں اسے پسند کرتا ہوں، میرے بچے پڑوس میں جاکر ٹی وی دیکھ آتے ہیں جس سے بچوں کے اخلاق و عادات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے بچوں کو سزا اس لئے نہیں دیتا کہ اس سے بھی اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے کیا ایسے حالات میں مجھے ٹی وی رکھنے کی اجازت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ٹیلی ویژن دورحاضر کا ایک ایسا فتنہ ہے کہ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والوں کا ضمیر بھی چیخ اٹھا ہے کہ اس کے دیکھنے سے بچوں کے اخلاق و عادات میں بگاڑ پیداہو رہا ہے، جیسا کہ سوال میں اس کی وضاحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو لوگ ایمانداروں میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں سزا کے حق دار ہیں‘‘۔     [۹/التوبۃ:۱۹]

اس آیت کریمہ کی زد میں وہ تمام ذرائع ووسائل آجاتے ہیں جو فحاشی پھیلانے، بے حیائی عام کرنے، بداخلاقی کی تعلیم دینے، بے راہ روی پر اکسانے صنفی جذبات بھڑکانے، جنسی خواہشات ابھارنے اور رقص و سرود کا سامان مہیا کرنے میں پیش پیش ہیں۔ٹیلی ویژن، اگرچہ دنیاوی لحا ظ سے بے شمار فوائد و منافع کا حامل ہے لیکن دینی او راخلاقی اعتبار سے انتہائی نقصان دہ اور ضرر رساں واقع ہوا ہے۔ بالخصوص نئی پود میں آوارگی اور نوجوانوں میں حیا باختگی پیدا کرنے میں اس نے بہت نمایاں کردار ادا کیا ہے، ہمارے نزدیک ٹیلی ویژن کے دنیاوی فوائد کے پیش نظر اس کے گھر میں رکھنے کے جواز مہیا کرنا ایک چور دروازہ کھولنا ہے۔ جس کے ذریعے شیطان اور اس کی ذریت کو اپنے گھر کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس کے مفاسد کے پیش نظر مکمل طور پر اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور بچوں کو سختی سے منع کرنا چاہیے، اس لئے اگر بچوں کو تھوڑی بہت سزا دی جائے تو اس سے بچوں کے اخلاق متاثر نہیں ہو ں گے، جیسا کہ سائل نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے ۔ اسلامی غیرت اور دینی حمیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ٹیلی ویژن کے متعلق اپنے اندر کوئی نرم گوشہ نہ رکھا جائے ، اس کے نقصانات کی مختصر جھلک یہ ہے کہ ٹیلی ویژن ایسے حیا سوز ڈرامے اور فحش مناظر پیش کرتا ہے کہ انہیں دیکھ کر با حیا انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ چوری ، ڈکیتی، مار دھاڑ کی عملی تربیت دی جاتی ہے جس سے امن عامہ تباہ و برباد ہو رہا ہے، نیز اخلاق و کردار کو بگاڑنے میں بڑا مؤثر کردار سر انجام دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ تصویر کو اس میں نمایاں حیثیت دی جاتی ہے جو فتنہ و فساد کی اصل بنیاد ہے۔ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے، ان کے علاوہ اور بھی بے شمار نقصانات ہیں جن کے پیش نظر اس سے کلی اجتناب کرنا ہی مناسب ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:460

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ