السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الیکشن کی شرعی حیثیت کیا ہے، جماعتی اختلافات ختم کرنے کے لئے الیکشن یا انتخاب کا شرعی طریقہ کیا ہے، کیا الیکشن کمیشن میں سے بعض حضرات کابینہ کے ارکان منتخب ہو سکتے ہیں؟ قرآن وحدیث کے مطابق جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ موجود الیکشن جمہوریت کی پیداوار ہیں ہاں، اگر سنجیدہ فکر اور درد دل رکھنے والے حضرات باہمی سرجوڑ کر بیٹھیں اور ہچکولے کھانے والی نائو کو ساحل سمندر سے ہم کنار کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کریں تو اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہے کیونکہ اس میں سربراہ مملکت کے انتخاب کے لئے کوئی لگا بندھا قاعدہ مقرر نہیں ہے، بلکہ حالات و ظروف کے پیش نظر اس میں توسیع کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ تو امید وار کی اہلیت کو دیکھا جاتا ہے اور ووٹر حضرات کے صاحب شعور ہونے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ دولت کے بل بوتے،دھونس دھاندلی کے ذریعے جو چاہتا ہے عوام کا نمایندہ بن کر سامنے آدھمکتا ہے ، اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں، یعنی گلی کوچوں کا کوڑا کرکٹ اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اگر الیکشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو امید وار کم از کم ایسا ہونا چاہیے جو فرائض کا پابند ہو، کبائر سے گریزاں اور جس کا ماضی داغ دار نہ ہو، اسی طرح ووٹر کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ صاحب شعور اور کھرے کھوٹے کی تمیز کرسکتا ہو۔ کسی کو نمایندہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق اس قدر لیاقت، معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کو نمٹانے کی صلاحیت رکھنے کی گواہی دینا ہے۔ اس لئے گواہی دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے برے کے درمیان تمیز کرسکتا ہو اور امید وار کے کردار کو اچھی طرح جانتا ہو اگر ان باتوں کا خیال نہ رکھا گیا تو فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کہ ’’جب معاملات کی بھاگ دوڑ نالائقوں کے سپرد کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘
صورت مسئولہ میں اختلافات کو نمٹانے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب بصیرت اور گہری سوچ و بچار رکھنے والے حضرات اکٹھے ہو کر کسی ایک جہاں دیدہ کو اپنا امیر منتخب کر لیں اور وہ امیر اپنی صوابدیدکے مطابق کمیٹی تشکیل دے اور پھر اس مجلس شوریٰ کے مشورہ سے جماعتی امور کو چلایا جائے، اگرکمیشن نے اپنے میں سے ہی کسی کو منتخب کرنا ہے اور یہ بات پہلے سے طے شدہ ہے تو کمیشن میں سے کسی کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی کہ ان میں کسی کو باہمی مشورہ سے منتخب کرلیا جائے۔ اگر پہلے سے طے شدہ نہیں ہے تو پھر کمیشن کے علاوہ کسی اور ساتھی کو اس ذمہ داری کا اہل قرار دیا جائے۔ بہرحال دور حاضر میں یہ مسئلہ بڑی نازک صورت حال سے دو چار ہے، اس لئے نہایت بصیرت کے ساتھ اس سے نمٹنا ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب