سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(466) گھوڑے کی حلت و حرمت کے متعلق شرعی حکم

  • 12485
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1918

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گھوڑے کی حلت و حرمت کے متعلق قرآن و حدیث کا کیا فیصلہ ہے؟ دلائل سے بیان کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ گھوڑا حلا ل ہے اور متعدد روایات میں اس کی حلت منقول ہے، حضرت اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا۔     [صحیح بخاری، الذبائح،۵۵۱۹]

ایک روایت میں ہے کہ ہم نے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہل بیت نے اس کا گوشت کھایا۔     [دار قطنی، ص:۲۹۰ ، ج۴]

حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں خیبر کے دن گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کو کھانے کی اجازت دی۔     [صحیح بخاری، الذبائح،۵۵۲۰]

بعض روایات میں ہے کہ ہم نے خیبر کے دن گھوڑے کا گوشت کھایا۔     [ صحیح مسلم، الصید،۵۰۲۲]

ائمۂ کرام میں سے صرف امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ  کی طرف سے اس کی حرمت منقول ہے، البتہ امام ابو یوسف اور امام محمد; نے اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہوئے اس کی حلت کا فتوی دیا ہے۔     [کنز الدقائق،ص:۲۲۹ مترجم ، فارسی]

محدث ثناء اللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں کہ گھوڑا حلا ل ہے۔     [مالا بدمنہ، ص: ۱۱۰]

مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ گھوڑوں کا کھانا جائز ہے بہتر نہیں ہے۔     [بہشتی زیور، ج۵،ص:۵۶]

کتب فقہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  نے اپنی وفات سے تین دن پہلے گھوڑے کی حرمت سے رجوع کرلیا تھا۔ (در مختار) مختصر یہ ہے کہ گھوڑا حلا ل ہے، اگر طبیعت نہ چاہے تو اس کا کھانا ضروری نہیں، لیکن حلال کہنے  والوں پر طعن و تشنیع درست نہیں ہے۔امام محمد  رحمہ اللہ  نے صاف اعلان کیا ہے کہ ہم گھوڑے کے گوشت کے متعلق کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔  [کتاب الآثار،ص:۱۸۰]

 اس بنا پر احناف کو اس مسئلہ کے متعلق سختی نہیں کرنی چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:458

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ