السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے بہت سے بزرگ علما سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے وقت اپنے ہاتھ میں عصایا کھونٹی وغیرہ رکھتے تھے اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا ہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس’’ خود ساختہ سنت‘‘ کی وجہ سے بندہ خود بھی اپنے گھر میں والد محترم حفظہ اللہ کے زیر عتاب رہتا ہے۔ وہ ہمیں اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آئے دن ملامت کرتے رہتے ہیں۔ لیکن تلاش بسیار کے باوجود مجھے تادم تحریر اس کا کہیں سراغ نہیں مل سکا، تاہم مزید تلاش جاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ یا خطبہ عیدین کے موقع پر اپنے ہاتھ میں لاٹھی یا کمان رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت حکم بن حزن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ایک دفعہ جمعہ ادا کیا تو میں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں دوران خطبہ ایک لاٹھی یا قوس تھی جس کے سہارے آپ کھڑے تھے۔ [ابو دائود، الصلوٰۃ،۱۰۹۶]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو ران خطبہ سہارا لینے کے لئے ہاتھ میں لاٹھی وغیرہ رکھنا سنت ضرور ہے لیکن چلتے وقت اسے ہمیشہ کے لئے سنت قرار دینا محل نظر ہے۔ اس کے علاوہ حبشہ کے فرمانروا حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹا سا نیزہ بطور تحفہ بھیجا تھا وہ بھی کبھی کبھار کسی ضرورت کے لئے استعمال کرلیا جاتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے باہر تشریف لے جاتے تو میں اور ایک دوسرا بچہ پانی کا مشکیزہ اور چھوٹا نیزا اٹھا کر ساتھ لے جاتے۔ [صحیح بخاری، الوضو،۱۵۲]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس چھوٹے نیزے کو زمین نرم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا، بطور نشانی گاڑ دیا جاتا تاکہ گزرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ادھر کوئی آدمی بیٹھا ہے۔ [فتح الباری،ص: ۳۳۱، ج۱]
اسے بعض اوقات بطور سترہ بھی آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تھا، چنانچہ حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے تو آپ نے وضو کیا او ر ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی اور آپ کے آگے بطور سترہ نیزہ گاڑ دیا گیا۔ [صحیح بخاری، الصلوٰۃ،۴۹۹]
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا: ’’اے موسیٰ! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی میری لاٹھی ہے۔ میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں، علاوہ ازیں میرے لئے اس میں اور بھی کئی فوائد ہیں۔‘‘ [۲۰/طہٰ:۱۷،۱۸]
مذکورہ فوائد کے علاوہ دیگر فوائد کے ذریعے بھیڑوں کو ہانکنا، ریوڑ کی حفاظت کرنا،درندوں کے حملے سے بچانا اور ان کا تعاقب کرنا ہو سکتا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ’’ سنت موسوی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔لیکن ہمیشہ چلتے وقت اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکھنے اور اسے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینے کے متعلق ہمیں شرح صدر نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب