سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(455) دم کرنا اور اس پر معاوضہ لینا

  • 12474
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3315

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دم کرنا اور اس پر معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں؟کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کو دم کرکے معاوضہ لیا تھا؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت مطہرہ کی روشنی میں دم کرنا اور کروانا دونوں جائز ہیں، جبکہ مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں۔

٭  دم شرکیہ الفا ظ پر مشتمل نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی کلام، اس کے اسمائے گرامی اور صفات عالیہ سے ہو۔

٭  بامعنی عربی زبان میں ہو ، جادو، ٹونے اور ناجائز عبارات پر مشتمل نہ ہو ۔

٭  نجس حالات، یعنی جنابت اور قضائے حاجت کے دوران نہ کیا جائے۔

٭  دم کرنے اور کرانے والا یہ عقیدہ رکھے کہ ذاتی طور پر دم فائدہ مند نہیں، بلکہ مؤثر حقیقی صرف اللہ کی ذات ہے۔دم کے جواز کے متعلق روایات کتب حدیث سے مروی ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود اپنے آپ کو دم کیا۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر آرام کرنے کے لئے تشریف لاتے تو معوذات پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک مارتے، پھر جہاں تک ممکن ہوتا اپنے چہرے اور جسم پر انہیں پھیرتے۔     [بخاری، الطب:۵۷۵۰]

دوسروں پر بھی دم کرتے، جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما  پر دم کیا کرتے تھے۔     [بخاری، الانبیاء:۳۳۷۱]

دوسروں کو دم کرنے کا حکم بھی دیتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دفعہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  کے گھر ایک لونڈی کا چہرہ زرد رنگ کا دیکھا تو فرمایا: ’’اسے دم کرو کیونکہ اسے نظر بد لگی ہوئی ہے۔‘‘     [بخاری، الطب:۵۷۳۹]

دم کرکے اجرت لینا بھی جائز ہے، جیسا کہ مخصوص حالات کے پیش نظر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  نے ایک سردار پر سورۂ فاتحہ سے دم کرنے کی اجرت طے کی تھی۔ پھر دم کرکے فیس وصول کی، جسے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے برقرار رکھا، بلکہ حوصلہ افزائی کے طور پر فرمایا: ’’اس میں میرا بھی حصہ رکھو۔‘‘     [بخاری، الطب:۵۷۴۹]

لیکن دم کرنے کے لئے ہمہ وقتی سروس اور اسے پیشہ یا ذریعہ معاش بنانا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے، کیونکہ

اولاً:         اس کے لئے ہمہ وقت کی فراغت اور اسے پیشہ بنانے کا ثبوت اسلاف سے نہیں ملتا۔

ثانیاً:                     ایسا کرنے سے دم کے بجائے دم کرنے والے کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ دم اصل اور دم کرنے والا اس کے تابع ہے، اس لئے ہر وہ ذریعہ جو کلام اللہ اور دم کی ثقاہت کمزور کرے اس کا سد باب بہت ضروری ہے، لہٰذا دم کرنا اور اس پر اجرت(فیس) لینا تو جائز ہے لیکن ہمہ وقتی سروس کی صورت میں اسے ذریعہ معاش بنا لینا جائز نہیں ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ کسی صحابی پر دم کرکے معاوضہ وغیرہ نہیں لیا، تاہم دم کے عوض طے شدہ معاوضہ کے متعلق یہ ضرور فرمایا تھا کہ میرا بھی اس  میں حصہ رکھو، جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالہ سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:450

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ