السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد صاحب مجھے ایک حدیث سناکرمجھ سے مال کامطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آپ اور آپ کامال بھی والد کاہے۔‘‘ حالانکہ میں خود بھی صاحب عیال ہوں اورمیری ضروریات بھی ہیں۔ وضاحت کریں کہ مجھے کس حد تک اپنے والد کامطالبہ پورا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
والدکے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال سے جوچاہے لے لے ،بشرطیکہ وہ اس کا ذاتی طورپر ضرورت مند ہو، جیساکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا: یارسول اللہ! میرے پاس مال بھی ہے اورمیری اولادبھی ہے میرے والد مجھ سے مال لیناچاہتے ہیں ،میں کیاکروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تواورتیرامال تیرے والد کاہے۔‘‘ [ابن ماجہ ،التجارات :۲۲۹۱]
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمہارا سب سے اچھا کھاناوہ ہے جوتمہاری کمائی کاہواورتمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی سے ہے ۔‘‘ [ابن ماجہ ، التجارات :۲۲۹۲]
شارحین نے اس حدیث کوبنیاد بنا کر لکھا ہے کہ والداپنے بیٹے کے مال سے جو چاہے کھاسکتا ہے مگربیٹا اپنے والد کے مال سے اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کھاسکتا۔ فقہا نے لکھا ہے کہ والد اپنے بیٹے کامال درج ذیل شرائط کے ساتھ لے سکتا ہے ۔
1۔ وہ بیٹے کواس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے ۔
2۔ وہ ایسی چیزنہ لے جس کی بیٹے کوخود ضرورت ہو۔
3۔ وہ ایک بیٹے سے لے کر دوسرے بیٹے کونہ دے ۔
4۔ یہ لینا دینادونوں میں سے کسی ایک کابھی مرض موت میں نہ ہو۔
5۔ والد کافراوربیٹامسلمان نہ ہو یعنی ان کے دین مختلف نہ ہوں ۔
ان شرائط کی موجودگی میں باپ اپنے ذاتی استعمال کھانے پینے اورلباس وغیرہ کے لئے جب چاہے، اپنے بیٹے کامال لے سکتا ہے ۔بعض حضرات نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ مال لیتے وقت بیٹے کی رضامندی بھی ضروری ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ ’’کسی مسلمان کامال اس کی رضامندی کے بغیرحلال نہیں ہے ۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۷۲، ج۵]
لیکن ہمارے نزدیک اس شرط کااطلاق عام انسانوں کے لئے ہے۔ابن ماجہ کی پیش کردہ حدیث کے مطابق باپ اس سے مستثنیٰ ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب