سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(436) بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کےلیے مجبور کرنا

  • 12455
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1321

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمیں ایک سوال موصول ہواتھا کہ اگر بیوی اپنی مرضی سے خاوند کے والدین کی خدمت نہ کرے توکیا خاونداپنی بیوی کواپنے والدین کی خدمت کے لئے مجبورکرسکتا ہے ،ہم نے جواب میں لکھاتھا کہ بیوی اپنے خاوند کے والدین کی خدمت میں کوتاہی نہ کرے ،یہ خدمت سسرال کاحق ہے ،دلیل کے طورپر ہم نے حضرت ابراہیم  علیہ السلام اوران کے لخت جگر حضرت اسماعیل  علیہ السلام کاحوالہ دیا تھا۔اس کے متعلق ہمیں خط موصول ہوا ہے کہ میں آپ کے جواب سے بخوبی اتفاق کرتاہوں لیکن آپ نے اپنے جواب میں اس کے متضاد پہلوکونظر اندازکردیاہے وہ یہ ہے کہ اگر خاوندکے والدین اوراس کے بہن بھائی ،خاوند کی بیوی کے ساتھ اچھاسلوک نہ کریں ۔توآپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت نہیں فرمائی،آپ کاجواب تویکطرفہ فیصلہ ہے ،اس کے بعد ہمارے محترم نے اڑھائی صفحات پرمشتمل اپنی بیٹی پرروا رکھے جانے والے ظلم کی المناک اوردل سوزداستان رقم کی ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے سامنے جب کوئی سوال آتا ہے ۔قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریرکیاجاتا ہے۔ استثنائی حالات سے ہم بے خبر ہوتے ہیں، اس لئے ’’متضاد پہلوکونظرانداز کردینے ‘‘کاالزام ہمیں نہیں دیاجاسکتا اورنہ ہی ہمارے کسی جواب کو’’یکطرفہ فیصلہ ‘‘قراردیاجاسکتا ہے ،ایسے مواقع پر خاوند کواپناکردار اداکرناچاہیے، جیساکہ ہم نے اپنے جواب کے آخر میں لکھا تھا۔ خاوند کوچاہیے کہ وہ افہام و تفہیم کے ذریعے ایسے کاموں کوسرانجام دے اورمحبت واتفاق کی فضا کوبرقراررکھتے ہوئے خودبھی والدین کی خدمت کرے اوراپنی بیوی کوبھی یہ سعادت حاصل کرنے لئے پابندبنائے۔ محترم کے بیان کردہ حالات کے پیش نظر ہمارے سامنے بیوی کے لئے دوراستے ہیں:

ایک عزیمت کا۔                       دوسرارخصت کا۔

بدسلوکی دیکھ کرحسن سلوک کامظاہر ہ کیاجائے لیکن یہ بہت مشکل اورگراں ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’’نیکی اوربرائی کبھی ایک جیسی نہیں ہوسکتیں ،آپ بدی کوایسی بات سے دفع کیجئے جواچھی ہو ،آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ سے عداوت تھی وہ آپ کاگہرادوست بن گیا ہے اوریہ بات صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جوبڑے صبر کیش ہوتے ہیں اوریہ اعزازصرف ان کو ملتا ہے جوبڑے نصیب والے ہوتے ہیں ۔‘‘     [۴۱/حٰمٓ السجدہ :۳۴۔۳۵]

اس عزیمت پرعمل پیراہونابچوں کاکھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ مند اور جگرگردہ رکھنے والوں کاکام ہے لیکن آخرکار یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لہٰذا اگرعزیمت پرعمل کرتاہے توخاوند کے والدین اوراس کے بہن بھائیوں کی بدسلوکی برداشت کرکے خدمت گزاری کافریضہ سرانجام دیتے رہناچاہیے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد گرامی ہے کہ ’’صلہ رحمی کرنے والاوہ نہیں ہوتا جواچھابرتاؤ کرنے والے سے خوش اسلوبی سے پیش آئے کیونکہ یہ ادلے کابدلہ ہے ۔صلہ رحمی کرنے والادراصل وہ ہے جوقطع تعلقی کرنے والوں کے ساتھ بھی نرم رویہ اور ملنساری سے پیش آئے ۔‘‘     [صحیح بخاری ، الادب :۵۹۹۱]

٭  دوسراراستہ رخصت کا ہے، بشرطیکہ خاوند کاساتھ دے ،والدین سے علیحدگی اختیارکرلی جائے ،شادی کے بعد والدین سے علیحدہ ہوجانا ہمارے معاشرے کاایک حصہ ہے اورشریعت نے اسے بری نگاہ سے نہیں دیکھا ہے، بیوی خاوند اگرعلیحدہ رہیں گے توہرروز کی گھٹن اورتوتکار سے نجات مل جائے گی۔اکھٹے رہتے ہوئے حالات مزیدخراب ہوسکتے ہیں ۔آخرصبروہمت کی بھی انتہا ہوتی ہے۔

 اگرعزیمت پرعمل کرنے کی ہمت نہ ہواورعلیحدگی اختیار کرنے میں خاوند ساتھ نہ دے توزندگی اجیرن بنانے کے بجائے شریعت نے ایک دوسراراستہ اپنانے کاہمیں اختیاردیا ہے، وہ خلع لینے کاہے ۔صحابیات مبشرات lکی مثالیں موجود ہیں جب نباہ کی کوئی صورت نظرنہیں آئی توانہوں نے کچھ دے دلاکر اپنے خاوند سے خلع حاصل کرلیا۔

آخر میں ہمارا مشورہ ہے کہ برادری کے طورپر خاوند کے والدین کوسمجھایا جائے اورانہیں کتاب وسنت کی روشنی میں بچی کے ساتھ حسن سلوک کرنے پرآمادہ کیاجائے اوراگربچی میں کوئی قصور ہے تواسے بھی دورکرنے کی کوشش کی جائے، تاکہ زندگی کے یہ چند مستعاردن خوش اسلوبی سے گزرجائیں ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:438

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ