سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(435) خاوند کی اجازت کے بغیر گھریلو اخراجات کے لیے پیسے لینا

  • 12454
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1045

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں، ایسے حالات میں مجھے شرعا اجازت ہے کہ میں گھریلو اخراجات کے لئے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکال لوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے اور تنگدست اللہ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے۔‘‘   [۶۵/الطلاق:۷]

اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اسی بات کی تلقین فرمائی ہے حدیث میں ہے: ’’بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات تمہارے ذمے ہیں۔‘‘     [صحیح مسلم، الحج:۲۹۵۰]

ان اخراجات میں کھانا، پینا، علاج ،رہائش اور لباس وغیرہ شامل ہیں۔ خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق ان اخراجات کو پورا کرے اور اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتا ہے یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیوی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کرسکتی ہے، جیسا کہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا  نے ایک مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ گھریلو اخراجات پورے طور پر ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں، جس سے گھر کا نظام چل سکے ۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ہاں! اس کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقہ کے مطابق تیرے اور تیری اولاد کی گزر اوقات ہو سکے، یعنی گھر کا نظام چل سکے۔‘‘     [صحیح بخاری، النفقات:۵۳۶۴]

امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:

’’اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر لے لے، جس سے معروف طریقہ کے مطابق اہل خانہ کا گزارا ہو سکے۔‘‘

مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے تو بیوی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کے لئے ہے فضولیات کے لئے نہیں، نیز ایساکرنے سے بیوی، خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشید ہونے کا اندیشہ ہے تو   اس طریقہ سے اخراجات پورے نہیں کرنے چاہییں، کیونکہ بیوی، خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے ، اس بات کا فیصلہ بیوی خود کرسکتی ہے کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے، بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعاً اجازت ہے۔ جس سے معروف طریقہ کے مطابق گزر اوقات ہو سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:437

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ