سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(420) سود کی رقم مجبور شخص کو دینا

  • 12439
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 821

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے دولاکھ روپے بنک میں رکھے ،اسے ایک سال دس ہزار سود ملا،اگرسود نہیں لیتا توبنک عملہ اسے بانٹ لے گا، لہٰذا وہ آدمی اپنی سود کی رقم کسی ایسے شخص کودے دیتا ہے جس کے لئے مردار اورخنزیرکھانابھی حلال ہے ، کیا ایسا کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ وہ آدمی سود کی رقم لینے کوبہت بڑاگناہ سمجھتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے نزدیک سودایک ایسی غلاظت ہے جس سے اللہ اوراس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ممکن طور بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔اسلام ہرپہلوسے اس نظام کااستیصال چاہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی سنگینی کوبایں الفاظ بیان کیا ہے ’’اگرتم اس سے باز نہیں آؤ گے تواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔‘‘    [۲/البقرہ :۲۷۸]

 رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس گندے نظام سے نفرت دلائی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:’’سود دینے والاسودلینے والا،اس پرگواہی دینے والا، اسے لکھنے والا سب ملعون ہیں اوریہ سب گناہ میں برابرہیں ۔‘‘    [صحیح مسلم ،البیوع :۱۵۹۸]

نیز آپ نے فرمایا کہ ’’اگر اس جرم عظیم کے ستر حصے کئے جائیں تو اس کا ہلکا حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔‘‘[ابن ماجہ، الطہارۃ:۲۲۷۴]

 بلکہ آپ نے سود کھانے کوچھتیس مرتبہ زناکرنے سے بھی زیادہ سنگین قراردیاہے۔     [مسندامام احمد ]

 لیکن ہم لوگ اس کے متعلق نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں کہ اسے بنک سے وصول کرلیناچاہیے ۔

پھر اس کی تین قسم بیان کی جاتی ہیں:

1۔  ثواب کی نیت کئے بغیر کسی محتاج یارفاہ عامہ میں خرچ کر دیا جائے۔

2۔   بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو اس کی جگہ سودکی رقم کوصرف کر دیا جائے۔

3۔   ناجائز ٹیکسوں پراسے صرف کر دیا جائے۔

مگرجب اس سلسلہ میں شریعت کے احکام دیکھتے ہیں تومصلحتوں کایہ تعبیرکردہ بلندوبالا محل دھڑام سے نیچے آگرتا ہے ، کیونکہ انسان فطرتاًحریص واقع ہوا ہے، لہٰذا اسے مال کسی راہ سے بھی نظرآئے تواسے چھوڑنے کودل نہیں چاہتا ،جب اسے سود وصول کرنے کی اجازت مل جائے گی تو اس گندگی سے خودپاک وصاف نہیں رہ سکے گا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نظریہ  میں لچک پیدا ہونا شروع ہوجائے گی، پھرخوداسے استعمال کرنے کی راہیں تلاش کرے گا شریعت اسے مال تسلیم نہیں کرتی کہ اسے وصول کرکے دوسری جگہ پرصرف کیاجائے۔ قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے کہ’’تم سود سے توبہ کرلوتوتم صرف اپنے اصل سرمایہ کے حقدارہو۔‘‘    [۲/البقرہ :۲۷۹]

جب سود کی رقم ہماری نہیں ہے توہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اس کامصرف کیاہوناچاہیے ،بنک کا عملہ ملی بھگت کرکے اسے ہڑپ نہیں کرسکے گا۔ یہ ایک مفروضہ ہے یہ رقم کسی عرصہ تک اس کے اکاؤنٹ میں پڑی رہے گی، پھررفتہ رفتہ سروس چارج جیسے چور دروازہ سے نکلنا شروع ہو جائے گی۔ صورت مسئولہ میں اس قسم کی غلاظت وصول کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ:

 اولاً:  توکوئی آدمی ان دنوں ایسے حالات سے دوچارنہیں ہوسکتا کہ اسے مردار اورخنزیر کھانے تک نوبت آجائے ۔

ثانیاً :  جوآدمی دولاکھ کامالک ہے ،اسے چاہیے کہ اپنے دوسرے بھائی کوگندگی کھلانے کے بجائے وہ اپنی حلال پاکیزہ کمائی سے اس سے تعاون کرے یاکم ازکم دولاکھ سے پانچ ہزار زکوٰۃ ہی اسے دیدے ۔

ثالثاً:  ہماری جماعت ابھی تک ایسی خودغرضی کی شکارنہیں ہوئی کہ اس میں ایسے اہل خیر کافقدان ہوجوآڑے وقت کسی کے کام نہ آسکتے ہوں ،اس طرح کا مجبورانسان راقم الحروف سے رابطہ کرے اللہ کی توفیق سے ہم اسے اس قسم کی گندگی کے پاس نہیں جانے دیں گے ان شاء اللہ ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:425

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ