السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری تنخواہ ٢٨٠٠ ریال ہے ۔اس میں سے کتنے پیسے مجھے اپنے والدین کودینے چاہیئں ؟ میں نے اپنی تنخواہ میں سے ١٠٠٠ ریال ان کو دیے دئیے بتایا کے ماہانہ اتنا دوں گا۔ لیکن انہوں نے لینے سےانکار کر دیا، اور انہوں نے بولا کے مجھے مکمل چاہئے۔ تم کون ہوتے ہو شرح فی صد لگانے والے۔اب مجھے کیا کرنا چاہئے، قرآن و حدیث کی روشنی میں بتا دیجئے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!شرعی اعتبار سے اگر والد اپنی اولاد کے مال میں سے کچھ لینا چاہے تویہ اس کا حق ہے ،وہ لے سکتا ہے۔نبی کریم نے فرمایا: أنت ومالك لأبيك (مسند احمد:6902)تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے اولاد پر کوئی ضرر نہ آئے۔ اگر بیٹے کی اولاد اور بیوی ہوتو ان کے نان ونفقہ کا خیال رکھے۔کیونکہ نبی کریم نے فرمایا: لا ضرر ولا ضرار)(مسند احمد:2865)کسی کو ضرر نہ پہنچایا جائے۔ اسی طرح والد کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہےکہ وہ ایک بیٹے کا مال لے کر دوسرے کو دے دے ۔بلکہ وہ ایسا طرز عمل اختیار کرے کہ اولاد اسے سے متنفر نہ ہو ،اور فقط اپنی ضروریات کے مطابق ہی اس کے مال سے لے۔ورنہ اولاد کی طرف سے نافرمانی کا خدشہ ہے۔احناف،مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے کہ والد صرف اپنی ضرورت کے مطابق لے سکتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |