سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(417) بزرگ حضرات کا بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دینا شرعاً کیسا ہے؟

  • 12428
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 2617

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرے میں بزرگ حضرات چھوٹی بچیوں کے سرپرپیاردیتے ہیں ،اس پرکچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شرعاًایساکرناجائزنہیں ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محبت بھرے جذبات سے خیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے بزرگوں کابچوں اوربچیوں کے سرپرہاتھ پھیرنے کو ہمارے معاشرہ میں  ’’پیار‘‘کہاجاتاہے۔ دین اسلام نے اسے مشروع قراردیا ہے، چنانچہ حضرت سائب بن یزید  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خالہ مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں ،انہوں نے عرض کیایارسول اللہ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے سرپرہاتھ پھیرااورمیرے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی ۔ [صحیح بخاری، المرضیٰ: ۵۶۷۰]

امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ ’’بچوں کے لئے خیروبرکت کی دعاکرتے ہوئے ان کے سرپرہاتھ پھیرنا۔‘‘     [صحیح بخاری ، الدعوات ، باب نمبر:۳۱]

ولیدبن عقبہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پرجب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف لائے تواہل مکہ اپنے بچوں کوآپ کی خدمت میں پیش کرتے ،آپ ان کے سرپرہاتھ پھیرتے اوران کے لئے دعائے خیر کرتے ۔     [مسندامام احمد،ص:۳۲، ج۴]

حضرت جریج رحمہ اللہ  پرجب تہمت زنالگی تواس واقعہ میں نومولودکے سرپرہاتھ پھیرنے کاذکرملتا ہے۔[مسندامام احمد، ص: ۴۳۴، ج۲]

اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں بھی یہ فطرتی رسم قائم تھی ،جسے اسلام نے بھی برقراررکھاہے بلکہ یتیم بچے کے سرپرہاتھ پھیرنے کو بہت اہمیت دی ہے، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’جس نے یتیم بچے یابچی کے سرپرہاتھ پھیرا،اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی مقصود تھی توہاتھ کے نیچے آنے والے ہربال کے عوض اسے نیکیاں دی جائیں گی۔‘‘                                                       [مسندامام احمد، ص: ۲۵۰، ج۵]

ایک آدمی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنگدلی کاشکوہ کیاتوآپ نے بطورعلاج یہ نسخہ تجوید کیا کہ ’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیراورمسکین کواپنے ساتھ کھانے میں شریک کیاکر اس سے تیرادل نرم ہوجائے گا۔‘‘     [مسند امام احمد، ص: ۲۶۳ج۲]

زیربحث مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :

٭  بزرگ مردمحرم ہوتواس کااپنے سے چھوٹوں کوپیار دینا، خواہ وہ بالغ ہی کیوں نہ ہوں ۔

 ٭  بزرگ عورت محرمات سے ہے،اس کا ا پنے سے عمر میں چھوٹوں کوپیار دینا، خواہ وہ حدبلوغ کوپہنچ چکے ہوں ۔

٭  بزرگ مردغیرمحرم یاعورت غیرمحرمہ کانابالغ بچوں اوربچیوں کو پیار دینا، اس کے جواز میں دوآراء نہیں ہوسکتیں ،البتہ درج ذیل صورتوں میں اختلاف ہے۔

 ٭  بزرگ مردغیرمحرم ہووہ اپنی رشتہ داربالغ بچیوں کے سرپرہاتھ پھیرے۔

٭  بزرگ عورت غیرمحرمات سے ہووہ اپنے رشتہ داربالغ بچوں کو پیار دے۔ ان آخری دونوں صورتوں کے متعلق مختلف علما سے رابطہ کرنے کے بعد دوموقف سامنے آئے ہیں:

1۔  ایساکرناجائز نہیں ہے کیونکہ شریعت میں اس کاثبوت نہیں۔

2۔  ایساکرناجائز ہے کیونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا۔

فریقین کے دلائل پیش کرنے کے بعد آخر میں ہم اپناموقف بیان کریں گے ۔جوحضرات اسے ناجائزقراردیتے ہیں ان کاکہناہے کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں ۔آپ نے کبھی کسی بالغ بچی کے سرپرہاتھ نہیں پھیرا حالانکہ آپ تمام لوگوں میں زیادہ پرہیزگار اوراللہ سے ڈرنے والے تھے۔ نیز وہ امت کے لئے روحانی باپ کی حیثیت رکھتے  ہیں۔ بلکہ بعض مواقع پر آپ نے ایسے ارشادات فرمائے ہیں جن کے عموم سے پتہ چلتا ہے کہ ایساکرناجائز نہیں ہے، مثلاً:

(الف)  عورتوں سے بیعت لیتے وقت بعض خواتین کی طرف سے خواہش کا اظہار ہوا کہ یارسول اللہ! آپ ہم سے مصافحہ کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘      [مسندامام احمد، ص: ۳۵۷، ج۶]

جب بیعت کے وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگاتوعام آدمی کے لئے عورتوں کے سرپرہاتھ پھیرناکیونکر جائز ہوسکتا ہے جبکہ یہ آدمی اس کے لئے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے ۔

 (ب)  حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ اللہ کی قسم !رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کوچھواتک نہیں۔ [صحیح بخاری ،الشروط:۲۷۱۳ ]

جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جوخیرالبشر ہیں قیامت کے دن اولادآدم کے سردارہوں گے ان کے مبارک ہاتھوں نے کسی عورت کے ہاتھ کوچھواتک نہیں تودوسرے غیرمردوں کے لئے کس طرح اجنبی عورتوں کے سرپرہاتھ پھیرنا جائز ہوسکتا ہے۔

(ج)  جوعورت مرد کے لئے حلال نہیں ہے اسے ہاتھ لگانابہت سنگین جرم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار  رضی اللہ عنہ    کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر آدمی کے سرمیں نوک دارلوہے سے سوارخ کردیاجائے تویہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کوہاتھ لگائے جوا س کے لئے حلال نہیں ہے۔‘‘     [ترغیب وترہیب، ص: ۳۹،ج۳]

امام منذری رحمہ اللہ  نے اس روایت کو بیہقی اورطبرانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ طبرانی کے راویوں کوصحیح کے راوی قرار دیا ہے۔ اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کوامام رویانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے اوراس پرصحیح ہونے کاحکم لگایا ہے۔ [الاحادیث الصحیحۃ :۲۲۶]

اس حدیث کی روسے بھی اجنبی عورت کوہاتھ لگانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، البتہ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظرعورت کوہاتھ لگانے میں چنداں حرج نہیں، مثلاً: بیماری کی حالت میں ڈاکٹر یاطبیب کانبض دیکھنا یامکان میں آگ لگنے کی صورت میں اسے پکڑ کر مکان سے باہر نکالنا، لیکن پیاردیتے وقت اس کے سرپرہاتھ لگاناکوئی حقیقی ضرورت نہیں۔جوحضرات بزرگوں کے لئے اجنبی عورت کو پیار دینے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی نقلی دلیل نہیں ہے ،البتہ وہ عقلی اعتبار سے کہتے ہیں کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے جو معاشرہ کے رسم و رواج سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ شریعت نے اس سے منع نہیں کیا،اس لئے ایساکرناجائز ہے، پھر ایساکرنے سے تبلیغ وغیرہ کابھی موقع ملتا ہے کہ اگروہ ننگے سرہوتو سمجھایا جاسکتا ہے ۔شریعت نے معاشرہ میں رائج ’’معروف ‘‘ کو بہت حیثیت دی ہے، اس لئے اسے جائز ہوناچاہیے ،پھر ایسے موقع پرکسی قسم کے منفی جذبات ابھرنے کاموقع بھی نہیں ہوتا۔ جن کے پیش نظر اسے ممنوع قراردیاجاسکے، اگر اندیشہ ہوتواس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مؤخرالذکرحدیث کاتعلق ایسے حالات سے ہے جب ہاتھ لگانے والا دل کاکوڑھ اورنیت میں فتوررکھتا ہو۔ہم نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ فریقین یعنی مانعین اور مجوزین کے دلائل قارئین کے سامنے رکھ دیئے ہیں ،ہمارارجحان یہ ہے کہ تقویٰ اورپرہیزگاری کے پیش نظر اس سے اجتناب کیا جائے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے عمر رسیدہ عورت کوپردہ کے سلسلہ میں کچھ نرمی دی ہے اس کے باوجود فرمایا ہے کہ ’’اگروہ اس نرمی کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں تویہی بات ان کے حق میں بہتر ہے ۔‘‘    [۲۴/النور:۶۰]

البتہ مجوزین حضرات کے موقف کوبالکل نظرانداز نہیں کیاجاسکتا اس کے پیش نظر اگرکوئی برخوردارعمررسیدہ خاتون کے سامنے سرجھکادے یاکوئی برخورداری اپنے کسی بزرگ کے سامنے پیار لینے کے لئے اپناسرآگے کردے توان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے، البتہ مسئلہ کی صحیح صورت حال سے انہیں ضرورآگاہ کر دیاجائے ۔ہمارے بعض خاندانوں میں ایسے موقع پرگلے ملنے کارواج ہے لیکن اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سرپرہاتھ پھیرتے وقت اگرکسی قسم کی شہوانی تحریک پیداہونے کا اندیشہ ہوتوبھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:419

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ