سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(414) عورتوں کے لیے کون سا کھیل جائز ہے؟

  • 12425
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1717

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احادیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ باہمی دوڑمیں مقابلہ کیا تھا، اس مقابلے کو عورتوں کے لئے کھیل کود کوجائز قراردینے کی بنیادقراردیاجاسکتا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس واقعہ کو سوال میں ذکر کیاگیا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا ایک مرتبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک سفر تھیں، جبکہ آپ کی عمر زیادہ نہ تھی نہ ہی آپ کاجسم فربہ ہواتھا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے فرمایا:’’تم ذرا آگے چلے جاؤ۔‘‘جب وہ تعمیل کرتے ہوئے کچھ آگے چلے گئے توآپ نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ’’تم میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرو۔‘‘ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں دوڑتے ہوئے آپ سے آگے بڑھ گئی ،پھرعرصہ درازکے بعد ایک مرتبہ پھرحضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا آپ کے شریک سفرتھیں ،آپ نے صحابہ  رضی اللہ عنہا سے فرمایا ’’کہ تم ذراآگے چلے جاؤ۔‘‘پھرآپ نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے فرمایاکہ ’’تم میرے ساتھ دوڑمیں مقابلہ کرو۔‘‘اس وقت آپ پہلے واقعہ کوبھول چکی تھیں اورجسم بھی فربہ ہو چکا تھا، فرمانے لگیں کہ میں اس حالت میں کیسے دوڑ سکتی ہوں ،آپ نے فرمایا کہ ’’ایسانہیں ہوسکتا آپ کودوڑ میں شریک ہونا ہو گا۔‘‘ چنانچہ میں نے آپ سے دوڑ میں مقابلہ کیاتوآپ آگے بڑھ گئے اورمیں پیچھے رہ گئی، آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نے پہلے مقابلے کابدلہ چکا دیا ہے۔‘‘    [مسند امام احمد، ص: ۲۶۴، ج۶]

واقعہ بیوی خاوند کے درمیان پیش آیا ،اسے اوپن مقابلوں میں عورت کے شریک ہونے کے لئے کیونکر بنیاد بنایا جا سکتا ہے، اس سے مقصوداچھے انداز میں معاشرتی زندگی کی تکمیل اورمیاں بیوی کے درمیان محبت والفت کاحصول تھا۔اس بنا پر اس واقعہ سے اس جیسے عمل کے لئے ہی استدلال لیا جا سکتا ہے، تاہم دین میں اتنی تنگی نہیں ہے کہ اگرعورتوں نے تفریح طبع کے طورپر کھیلنا ہے تو اس کے لئے درج ذیل پابندیوں کوپیش نظر رکھناہوگا :

 ٭  مقابلہ خواتین کے مابین ہواورانہیں دیکھنے والی بھی عورتیں ہی ہوں۔

٭  عورتوں کی جسمانی ساخت کے پیش نظر وہ ہلکی پھلکی کھیل میں حصہ لیں جس سے ان کی نسوانیت اوروقار مجروح نہ ہو۔

٭  مقابلہ اوپن نہیں ہوناچاہیے تاکہ وہ کسی قسم کافتنہ فساد انگیزی کاباعث نہ ہو۔

لیکن آج کل عورتیں نیکریں پہن کراپنے قابل سترحصوں کونمایاں کرکے کھیلوں میں شریک ہوتی ہیں، پھراس مقابلے کو ٹی وی پر نشر کیاجاتاہے ،مردحضرات اسے دیکھتے ہیں بلکہ میدان مقابلہ میں موجودہوتے ہیں ،ان کھیلوں سے ان کی نسوانیت بھی مجروح ہوتی ہے ،ایسے حالات میں عورتوں کاکھیلوں کے مقابلہ میں حصہ لیناحرام اورناجائزہے ۔اس قسم کی مقابلہ بازی سے انہیں باز رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ شروفسادکادروازہ نہ کھلے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:415

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ