السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی زانی شرعی سزاکے بغیرتوبہ کرے تو کیااس طرح گناہ کی تلافی ہوجاتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ گناہ دوطرح کے ہوتے ہیں، صغائر اورکبائر، صغیرہ گناہوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگرتم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیاجارہاہے توہم تمہاری چھوٹی چھوٹی برائیوں کوتمہارے حساب سے ساقط کردیں گے۔‘‘ [۴/النسآء:۳۱]
اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے سے چھوٹے موٹے گناہ خودبخودمعاف ہوجاتے ہیں۔ احادیث میں ہے کہ وضو کرنے اورنمازپڑھنے سے بھی ایسے گناہوں کی تلافی ہوجاتی ہے، البتہ کبیرہ گناہوں کامعاملہ ان سے ذرا مختلف ہے۔ ان میں سے بعض کاتعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے، ایسے گناہ توسچی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں اوربعض کبیرہ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کے ارتکاب پرحدجاری ہوجاتی ہے، ان کی پھر دواقسام ہیں:
پہلی یہ کہ ان کاتعلق حقوق العباد سے بھی ہوتا ہے، جیسے چوری وغیرہ ایسی صورت میں حد کے ساتھ جومال چرایا ہے اسے بھی واپس کرناہوگا۔
دوسری قسم یہ ہے کہ ان کاتعلق بندوں کے حقوق سے نہیں ہوتا ،جیسے شراب پیناایسے گناہوں کے ارتکاب پرحد کااجرا ضروری ہوتا ہے۔اوریہ حدہی اس گناہ کاکفارہ بن جاتی ہے۔ اگرحد کے نفاذ کاموقع نہیں دیاجاتاتومعاملہ اللہ کے سپرد ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے ایسے گناہ کاارتکاب کیاجس پر حد ضروری ہے اوراس پر حد جاری کردی گئی تویہی اس کے گناہ کاکفارہ ہے ۔بصورت دیگر معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔‘‘[ابن ماجہ کتاب الحدود، ۲۶۰۳]
چونکہ ہمارے ملک کی سزائیں غیرشرعی ہیں اورحد کامتبادل نہیں ہیں، اس لئے مروجہ سزالینے کے بعد بھی اسے توبہ کرتے رہناچاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مواخذہ سے محفوظ رہے ۔صورت مسئولہ میں زانی کوسزا لیناہوگی ،اگراس کے بغیر صرف توبہ پر اکتفا کرتا ہے تومعاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے تومعاف کردے اورچاہے تو مواخذہ کرے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب