سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(402) چہرے کے پردے کی فرضیت کے متعلق حکم

  • 12394
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 2325

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض علما کاخیا ل ہے کہ عورت کے چہرے کاپردہ فرض نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم سے چہرے کوڈھانپنا ثابت نہیں ہوتا ان کاکہنا ہے کہ اگرچہرے کے پردے کوفرض مان لیا جائے تواس امت کاایک بڑاحصہ ایک فرض کے تارک ہونے کی بنا پرجہنمی قرار پاتا ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ابتدائے اسلام میں عورتیں زمانۂ جاہلیت کی طرح قمیص اوردوپٹے کے ساتھ نکلتی تھیں جبکہ ان کاچہرہ کھلا ہوتاتھا اور شریف عورتوں کالباس ادنیٰ درجہ کی عورتوں سے مختلف نہ تھا ۔اس سے بے حیائی اوربے غیرتی کادروازہ کھلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سدباب کے لئے حکم دیا کہ ’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اورمسلمانوں کی خواتین کوحکم دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیاکریں ۔ ‘‘    [۳۳/الاحزاب: ۵۵]

یہ آیت کریمہ خاص چہرے کوچھپانے کے لئے ہے کیونکہ ’’جلابیب‘‘ جمع ہے ’’جلباب‘‘ کی، جس کا معنی بڑی چادر ہے اور ’’ادنیٰ‘‘ کامعنی لٹکانا ہے، یعنی چادر کے ایک حصے سے نیچے لٹکائیں ،یہی مفہوم گھونگھٹ ڈالنے کا ہے مگراصل مقصد کی کوئی خاص وضع نہیں بلکہ چہرے کو چھپانا مقصود ہے، خواہ گھونگھٹ سے چھپایا جائے یانقاب سے یاکسی اورطریقے سے یہ طریقہ اختیار کرنے سے چہرے کاپردہ خودبخود آجاتا ہے۔ دراصل عورت کاچہر ہ ہی وہ چیز ہے جومردکے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے اگراسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قراردیا جائے توحجاب کے باقی احکام بے سود ہیں۔ مفسرین نے درج بالاآیت کایہی مفہوم بیان کیا ہے۔ چنانچہ ترجمان القرآن سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی عورتوں کویہ حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لئے اپنے گھروں میں سے نکلیں توسر کے اوپر سے اپنی چادروں کے دامن لٹکا کراپنے چہروں کوڈھانپ لیاکریں ۔‘‘  [تفسیر ابن کثیر]

حضرت امام ابن سیرین  رحمہ اللہ نے حضرت عبیدہ سلمانی  رحمہ اللہ سے ان الفاظ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے عمل کر کے دکھایا کہ اپنے چہرے اورسرکوڈھانپ لیااورصرف اپنی بائیں آنکھ کوکھلا رہنے دیا ۔    [تفسیرابن جریر ،ص: ۲۲،ج ۲۹]

امام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت حجاب کے نزول سے قبل عورتیں جلباب کے بغیرگھروں سے باہرنکلاکرتی تھیں اورمردان کے چہرے اورہاتھ دیکھتے تھے اوراس وقت عورت کے لئے جائز تھا کہ وہ اپنے چہرے اورہاتھوں کوننگا رکھے اوراس وقت ان اعضا پرمرد کی نگاہ پڑنا بھی جائز تھا، پھرجب اللہ تعالیٰ نے پردے کے احکام نازل فرمائے توعورتوں نے مردوں سے مکمل حجاب اختیار کرلیا ۔     [حجاب المرأۃ ولبا سہافی الصلوٰۃ]

بعض اہل علم کاخیال ہے کہ اس آیت سے مراد گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ ’’بکل مارنا‘‘ہے۔ اس توجیہ میں جوکچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے، تاہم توجیہ عقل ونقل کے خلاف ہے کیونکہ یہ آیت سورۂ احزاب کی ہے جو۵ہجری میں نازل ہوئی اورواقعۂ افک شوال ۶ہجری میں پیش آیا۔ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتیں ہیں کہ ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی ،اتنے میں میری آنکھ لگ گئی، ایک شخص صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ اس مقام پر آئے اوردیکھا کہ کوئی سورہا ہے اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کاحکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا اس نے مجھے دیکھ کر ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘پڑھا تومیری آنکھ کھل گئی ،میں  نے فوراًاپناچہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔     [صحیح بخاری ،المغاری :۴۱۴۱]

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ صحابیاتlکے ہاں چہرے کاپردہ رائج تھا حتٰی کہ حالت احرام میں بھی ازواج مطہرات اورعام خواتین اسلام نقاب کے بغیر اپنے چہروں کواجانب سے چھپاتی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’سوار ہمارے قریب سے گزرتے تھے اورہم عورتیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حالت احرام میں ہوتی تھیں ،جب وہ لوگ ہمارے سامنے آجاتے توہم اپنی چادر یں اپنے سروں کی طرف سے اپنے چہروں پر ڈال لیتیں اورجب وہ گزرجاتے توچہرہ کھول لیتی تھیں۔  [ابوداؤد، المناسک :۸۳۳]

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ احرام کی حالت میں اپنے چہرے کو اجانب سے ڈھانپ کررکھاکرتی تھیں ۔    [مستدرک حاکم، ص: ۴۵۴،ج ۱]

درج بالاحقائق کے پیش نظر اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ شریعت اسلامیہ میں عورت کے لئے چہرے کواجانب سے مستور رکھنے کاحکم ہے اوراس پر خودرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے عمل کیاجارہا ہے اورعورتوں کے لئے ایسے کرناقرآن کریم کی تجویز ہے۔ سوال کے آخر میں بڑی عجیب بات کہی گئی ہے کہ کسی چیز کی فرضیت سے، اس لئے انکار کردیا جائے کہ اس کے ترک سے اکثریت جہنمی قرارپاتی ہے۔بجائے اس کے کہ اپنی بدعملی کاعلاج کیا جائے اورکوتاہی کی اصلاح کی جائے الٹا اس کی فرضیت سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ کل کوئی منچلا اٹھے گا اورکہہ دے گا کہ نماز فرض نہیں ہے کیونکہ اس کے ترک سے اکثریت جہنمی ہوناقرارپاتی ہے۔ مختصر یہ کہ چہر ہ کاپردہ فرض ہے اورقرآن کریم ،احادیث نبویہ اورتعامل صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کایہی تقاضا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:406

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ