سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(389) بھینس کی حلت قرآن وسنت کی روشنی میں

  • 12381
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 2616

سوال

(389) بھینس کی حلت قرآن وسنت کی روشنی میں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیث حضرات بھینس کاحلال ہوناقیامت تک قرآن وحدیث سے ثابت نہیں کر سکتے، ہاں اگر فقہ حنفی کوتسلیم کرلیا جائے تومسئلہ بآسانی حل ہوسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فقہ حنفی منزل من اللہ نہیں ہے جس کااتباع ضروری ہواگر ایساہوتاتوامام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ کے شاگردان رشید امام ابویوسف اورامام محمد; امام صاحب کی 1/3حصے سے مخالفت نہ کرتے، مثلاً: امام صاحب کے نزدیک بٹائی پرزمین لے کرکاشت کرنا جائز نہیں ہے ۔اسی طرح نومولود کاعقیقہ کرنابھی ان کے نزدیک غیرمشروع ہے، جبکہ صاحبین نے اپنے امام کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے جواز استحباب کافتویٰ دیا ہے۔ قرآن کریم نے اس امت کو’’ماانزل‘‘کی اتباع کاحکم دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’لوگو! جو کچھ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیا ہے ا س کی پیروی کرو، اس کے علاوہ دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘    [۷/الاعراف: ۳]

اللہ تعالیٰ نے بطورشریعت دوہی چیزیں نازل کی ہیں۔ ایک قرآن اوردوسرااس کا بیان، یعنی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ’’ماانزل‘‘ میں بھینس کی حلت اس طرح ہے کہ اس میں ان چیزوں کی نشاندہی کردی گئی ہے جوحرام ہیں، مثلاً: جانوروں میں سے وہ حرام ہیں جونیش دار، یعنی کچلی والے ہیں اورپرندوں میں وہ حرام ہیں جوچنگال دار، یعنی پنجے سے شکارکرتے ہیں اور پنجے ہی سے پکڑکرکھاتے ہیں، بعض حرام جانوروں یاپرندوں کانام بھی لیا ہے، مثلاً: گھریلو گدھا،کتااورکواوغیرہ ۔اسی طرح وہ جانور بھی حرام ہیں جنہیں مارنے کاحکم ہے، مثلاً: چھپکلی وغیرہ یاجنہیں مارنے سے منع کیاگیا ہے، مثلاً: بلی اورمینڈک وغیرہ ،ان کے علاوہ جتنے بھی جانوریاپرندے ہیں ،سب حلال ہیں۔ بھینس ان حرام جانورکی فہرست میں کسی طرح بھی داخل نہیں ہے۔ اس بنا پر اس کے حلال ہونے میں کیا شبہ ہے، اس لئے ہمیں مذعومہ فقہ حنفیہ کاسہار الینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اگرشریعت کی نظر میں فقہ حنفی کی اتنی ہی قدروقیمت ہے توحجتہ الوداع کے موقع پر تکمیل دین کااعلان چہ معنی دارد۔امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے اسی(80) سال بعد پیداہوتے ہیں ۔ اگر فقہ حنفی کا وہی مقام ہے جس کے لئے اس قدر زور صرف کیا جارہا ہے تو اسی(80) سال تک دین نامکمل رہا۔ جسے فقہ حنفی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ نعوذ باللہ اس فکر کو تسلیم کرلینے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ بہرحال ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اورحدیث ایک مکمل شریعت ہے جس کی تکمیل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہدمبارک میں ہوئی۔اسے کسی قسم کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں ہے اوریہ مکمل دین قیامت تک کے لئے ہے۔ہمارے نزدیک دین اورشریعت کاکوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا نصًا یااشارۃً اقتضائے قرآن وحدیث میں ذکر نہ ہو۔اگرکوئی ہے تواسے پیش کیاجائے ۔ دیدہ و باید

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:394

تبصرے