سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(384) اوجڑی کی حلت کے متعلق شرعی حکم

  • 12376
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2646

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اوجڑی کے متعلق ہماری شریعت میں کیاہدایات ہیں یہ حلال ہے یا نہیں، ہمارے ہاں اس میں اختلاف ہے براہِ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے جوجانور انسانوں کے لئے حلال قراردیئے ہیں ان کے تمام اجزاء حلال اورجائز ہیں۔ ہاں، اگر اللہ تعالیٰ نے خودکسی چیز کوبندوں پرحرام کردیا ہو توالگ بات ہے، جیسا کہ حلال جانور کوذبح کرتے وقت اس کی رگوں سے تیزی کے ساتھ بہنے والے خون کوقرآن مجید میں حرام کیاگیا ہے اسے ’’دم مسفوح‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے ۔اس کے علاوہ حلال جانورکی کوئی چیز حرام نہیں ہے ،لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرحلال جانور کا ہر جزو کھانافرض ہے۔ اگرکسی حصے کے متعلق دل نہیںچاہتا تویہ اس کی مرضی ہے، تاہم اسے حرام کہناصحیح نہیں ہے ۔اس وضاحت کے پیش نظر حلال جانورکی اوجڑی بھی حلال ہے اوراسے عام حالات میں کھانا جائز اور مباح ہے۔ شرعی طورپر اس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  حلال جانور کے فلاں فلاں عضوکومکروہ خیال کرتے تھے۔ یہ روایات صحیح نہیں ہیںجس کی وضاحت ہم نے اہلحدیث مجریہ یکم نومبر 2003؁ء میں کی ہے۔ دراصل احناف کے نزدیک حلال جانور کابول وبرازپلیدہے چونکہ اوجڑی حلال جانور کے براز کامحل ہے، اس لئے یہ حضرات اسے مکروہ قراردیتے ہیں، حالانکہ یہ مفروضہ بھی محل نظر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  کاموقف ہے کہ جن جانور وں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کابول وبرازنجس نہیں ہے۔ آپ نے اس کے متعلق کئی ایک دلائل پیش فرمائے ہیں ۔ان دلائل کاتقاضا ہے کہ جن حیوانات کاگوشت کھایا جاتاہے ان کا بول وبراز نجس نہیں ہے اورنہ ہی اوجڑی اس کامحل ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے ۔یہ حلال جانور کاحصہ ہے۔اسے اچھی طرح دھوکر صاف کرکے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایسے اگر کسی کادل نہ چاہے تواسے کھانے پرمجبورنہیں کیا جاسکتا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:391

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ