سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(435) روزے کے آداب

  • 1237
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1787

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزے کے آداب کیا ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

روزے کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ احکام بجا لا کر اور ممنوع احکامات سے اجتناب کر کے اللہ عزوجل کے تقویٰ کو لازمی طورپر اختیار کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣﴾... سورة البقرة

’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِی أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» (صحيح البخاري، الصيام، باب من لم يدع قول الزور والعمل به فی الصوم، ح: ۱۹۰۳)

’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

ایک روایت میں جھوٹی بات ترک کرنے کے ساتھ جہالت کی باتیں ترک کرنے کا ذکر بھی ہے۔

٭        روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ صدقہ، نیکی اور لوگوں کے ساتھ احسان کیا جائے

            خصوصاً رمضان میں۔ یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان میں جب جبرئیل آپ کے ساتھ قرآن مجید کے دور کے لیے آتے تو آپ مجسم جو دو سخا ہوتے تھے۔

٭        روزے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جھوٹ، گالی گلوچ، دغا وخیانت، حرام نظر اور حرام چیزوں کے ساتھ دل بہلانے سے اجتناب کیا جائے اور ان تمام محرمات کو بھی ترک کر دیا جائے جن سے اجتناب روزہ دار کے لیے واجب ہے۔

٭        روزے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ سحری کھائی جائے اور تاخیر کے ساتھ کھائی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِی السَّحُورِ بَرَکَةً» (صحيح البخاري، الصوم، باب برکة السحور، ح:۱۹۲۳وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۵)

’’سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘

٭        روزے کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ تر کھجور کے ساتھ روزہ افطار کیا جائے۔ تر کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کے ساتھ اور اگر خشک کھجور بھی موجود نہ ہو تو پھر پانی کے ساتھ افطار کر لیا جائے۔ سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یا جب ظن غالب ہو کہ سورج غروب ہوگیا ہے، تو فوراً روزہ افطار کر لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ» (صحيح البخاري، الصوم، باب تعجيل الافطار، ح:۱۹۵۷وصحيح مسلم، الصيام، باب فضل السحور،ح:۱۰۹۸)

’’لوگ ہمیشہ خیریت کے ساتھ رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ394

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ