السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عقیقہ کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:
1۔ کیابچے کا عقیقہ ساتویں روز ہی کرنا چاہیے؟
2۔ کیاعقیقہ کے لئے جانور کادودانتہ ہوناضروری ہے ؟
3۔ عقیقہ کے لئے گائے میں سات اوراونٹ میں دس حصے ہوسکتے ہیں، قرآن وسنت کی روشنی میںجواب مرحمت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ بچے کی پیدائش پرعقیقہ کرناضروری ہے۔ حضرت سلمان بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، لہٰذااس کی طرف سے خون بہاؤ اوراس سے اذیت کی چیز، یعنی بال وغیرہ صاف کرو۔‘‘ [صحیح بخاری ، العقیقہ :۵۴۷۱]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں حکم دیا ہے اور اصول فقہ کاقاعدہ ہے کہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کاحکم دیں تو اس کا بجالانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بچہ اپنے عقیقہ کی وجہ سے گروی رکھاہوا ہے۔‘‘[ترمذی ،الاضاحی :۱۵۲۲]
جب بچے کا عقیقہ کیاجائے گاتواس کی گروی ختم ہوجائے گی، اگر اس کی طرف سے عقیقہ نہ کیاجائے تواس کامطلب یہ ہے کہ وہ گروی رکھاہوا ہے اوراس کاہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔بچے کاعقیقہ ساتویں دن ہی کرنا چاہیے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ساتویں دن بچے کاعقیقہ کیاجائے اورساتویں دن اس کانام بھی رکھا جائے اوراس کے بال بھی اتروائے جائیں۔‘‘ [ابووداود، الاضاحی:۲۸۳۷]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ ساتویں دن ہی کرنا چاہیے ، اگرساتویں دن نہیں کرسکا توپھر بعد میں جب بھی موقع ملے عقیقہ کیاجاسکتا ہے۔اس سلسلہ میں ایک روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ ’’ساتویں دن عقیقہ کرو۔ چودھویں دن کر لو، اکیسویں دن کر لو۔‘‘ لیکن یہ روایت محدثین کے معیارصحت پرپوری نہیں اترتی کیونکہ اس روایت میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ہے جوکثیر الغلط اورضعیف ہے۔ حدیث میں ہے کہ بچہ اپنے عقیقہ کی وجہ سے گروی رکھاہوا ہے۔ اس کاتقاضا ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیاجائے اگرساتویں دن نہیں کرسکا توپھرجب بھی موقع ملے عقیقہ کردے ، بعد میں اس کے متعلق کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے۔
عقیقہ کے جانور کے متعلق حدیث میں ہے کہ ’’لڑکا ہوتواس کی طرف سے دوبکریاں ایک جیسی، یعنی ان کی عمر ایک جیسی ہو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔‘‘ [سنن ترمذی ،الاضاحی :۱۵۱۳]
حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ تم پرکسی قسم کاکوئی ضرر نہیں کہ وہ دومادہ ہوں یادونرہوں۔ [سنن ترمذی ،الاضاحی :۱۵۱۶]
عقیقہ کے جانور کے متعلق دودانتہ ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے، اس کے متعلق حدیث میں کوئی پابندی نہیں ہے، دودانتہ ہونے کی شرط قربانی کے لئے ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی صراحت ہے ۔عقیقہ کے لیے گائے یااونٹ میں حصے رکھنا توبہت دورکی بات ہے ان کاعقیقہ میں ذبح کرناہی محل نظر ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضر ت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بیٹاپیداہوا توکسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ اس کی طرف سے اونٹ کاعقیقہ کریں ۔آپ نے جواب دیا اللہ کی پناہ، میں تووہی کام کروں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے آپ نے دوبکریاں ذبح کرنے کے متعلق فرمایا ہے جوہم عمر ہوں ۔[بیہقی ص: ۳۰۱، ج۹]
اس حدیث کے پیش نظر عقیقہ میں گائے یااونٹ ذبح کرنادرست نہیں ہے ۔ہماری پیش کردہ تفصیل کومدنظر رکھتے ہوئے سوالات کاترتیب وار جواب پیش خدمت ہے :
1۔ عقیقہ ساتویں روزہی کرناچاہیے اگرمالی استطاعت نہ ہوتوآیندہ کسی وقت بھی کیاجاسکتاہے۔
2۔ عقیقہ کاجانور دودانتہ یاعیوب سے پاک ہوناضروری نہیں ہے، البتہ اسے موٹاتازہ اورگوشت سے بھراہونا چاہیے۔
3۔ عقیقہ کے لئے گائے میں سات اوراونٹ میں دس حصے توبہت دورکی بات ہے بکری ،مینڈھااوردنبہ کے علاوہ دوسرے جانور، مثلاً: گائے یااونٹ ذبح کرنامحل نظر ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب