سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(368) حلال جانور کی اوجڑی ک حکم

  • 12359
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2335

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے علما سے سنا ہے کہ حلال جانور کی اوجڑی کھانامکروہ ہے ،عام حالات میں اسے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ کیارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکروہ قراردیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی چیز کولوگوں کے لئے حلال یا حرام کرنے کااختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے جوجانورحلال کئے ہیں ان کے تمام اجزا حلال ہیں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ خودکسی چیز کوحرام کردیں توالگ بات ہے، جیسا کہ حلال جانور کو ذبح کرتے وقت اس کی رگوں سے جوتیزی کے ساتھ خون بہتا ہے جسے دم مسفوح کہاجاتاہے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قراردیا ہے۔ اس خون کے علاوہ حلال جانورکی کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرحلال جانور کا ہر جزو کھاناضروری ہو۔ اگر حلال جانورکے کسی حصے کے متعلق دل نہیں چاہتا ۔تویہ انسان کی اپنی مرضی ہے۔ خودرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض حلال جانوروں کے گوشت کے متعلق اظہار ناپسندیدگی فرمایا لیکن آپ کے سامنے ایک ہی دسترخوان پر بعض صحابہ  رضی اللہ عنہم نے اسے تناول فرمایا۔اس کامطلب یہ ہے کہ کسی چیز کاناپسند ہونااوربات ہے اوراسے حرام قراردیناکار دیگر است، مختصر یہ کہ حلال جانورکے تمام اجزا حلال ہیں۔ سوائے ان اجزا کے جنہیں خوداللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو، اس لئے حلال جانور کی اوجڑی کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے بعض فقہا نے اس سلسلہ میں کاوش کی ہے اور انہوں نے حلال جانورکے کچھ اجزا کوحرام کہاہے ۔ان میں سے ایک اوجڑی بھی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک روایت کا سہارا لیاہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ذبح شدہ بکری کے سات حصوں کومکروہ خیال کرتے تھے، یہ روایت محدثین کے ہاں ناقابل حجت ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ  نے اس کے ضعف کوبیان کیا ہے۔ [ضعیف الجامع الصغیر ، رقم : ۴۶۱۹]

امام بیہقی رحمہ اللہ  نے بھی اس روایت پرسیر حاصل بحث کی ہے ۔     (السنن الکبریٰ، ص۷: ج۱۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:380

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ