سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(365) قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس کا تبادلہ کرنا کسی بہتر جانور سے

  • 12356
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 2835

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کاجانور خریدنے کے بعد کسی بہترجانور سے تبادلہ کرنایااسے فروخت کرکے اس سے بہتر جانور خریدنا شرعاًجائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ کے متعلق متقد مین میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ ائمۂ ثلاثہ، یعنی امام ابوحنیفہ ،امام مالک اورامام احمد بن حنبل  رحمہم اللہ کے نزدیک بہتر جانور سے تبادلہ کیا جاسکتا ہے ۔جبکہ امام شا فعی  رحمہ اللہ قربانی کے جانور کووقف کی طرح خیال کرتے ہوئے اسے فروخت کرکے یاکسی اورطریقہ سے تبادلہ کوجائز خیال نہیں کرتے ،جیسا کہ فقہ القدیم میں اس کی تفصیل ملتی ہے ۔ [مغنی ابن قدامہ ،ص: ۵۳۵، ج ۱۳]

ہمارے ہاں بھی بعض علما اسے ناجائز کہتے ہیں کچھ تو اس قدرانتہاپسند ہیں کہ قربانی کاجانور خریدنے کے بعد کسی عیب پڑجانے کی صورت میں بھی اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اسے ذبح کردینے کی تلقین کرتے ہیں، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ  کی حدیث (مسند امام احمد، ص: ۳۲، ج ۳) جس سے یہ مسئلہ کشید کیاہے ۔وہ سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی جابر جعفی انتہائی کمزوراوردوسرا اس کاشیخ محمد بن قرظہ مجہول ہے۔     [سبل السلام ،ص: ۹۴،ج ۴]

اس بنا پر اس مسئلہ کوذراتفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

جوحضرات قربانی کے جانور کوفروخت کرکے بہترجانور خریدنے یاکسی بہتر سے تبادلہ کے قائل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں

حضرت عروہ بارقی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (قربانی کی )بکری خریدنے کے لئے ایک دینار دیا ، انہوں نے ایک دینار سے دوبکریاں خریدیں، ان میں سے ایک کو دینار سے فروخت کردیا ،پھرجب ایک دینار اوربکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے توآپ نے اس کے لئے خریدوفروخت میں برکت کی دعافرمائی ۔    [صحیح بخاری ،المناقب :۳۶۴۲]

 بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قربانی کاجانورخریدنے کے لئے بھیجا تھا، لیکن راوی نے بعض اوقات قربانی کے بجائے صرف بکری خریدنے کاذکر کیا ہے۔     [مسند امام احمد، ص: ۳۷۵،ج۴]

اس روایت کوابوداؤد ،البیوع : ۳۳۸۴، ترمذی ،البیوع:۱۲۵۸،اور ابن ماجہ، الصدقات: ۲۴۰۲ میں بھی بیان کیاگیاہے ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قربانی کی بکری خریدنے کاحکم دیا تھا۔ سفیان راوی اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ وہ آپ کے لئے بکری خریدے ،گویاوہ قربانی ہے۔     [صحیح بخاری ،المناقب :۳۶۴۳]

اس موقف کی تائید میں حضرت حکیم بن حزام  رضی اللہ عنہ کی روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی قربانی خریدنے کے لئے ایک دینار دیا۔انہوں نے اس کے عوض ایک مینڈھا خریدا ، واپسی پرراستہ میں اسے دودینار کے عوض فروخت کر دیا، پھر منڈی سے ایک دینار کے عوض قربانی کاجانور خرید کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قربانی کاجانوراوردینار دونوں پیش کردیئے ۔آپ نے اس دینار کوبھی بطور صدقہ خرچ کردیااور حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  کے لئے اس کی تجارت میں خیروبرکت کی دعافرمائی۔     [ابوداؤد ،البیوع :۳۳۸۶]

بعض روایا ت میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  کوحکم دیاکہ قربانی ذبح کرواورمنافع کے دینارکواللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردو۔    [ترمذی ، البیوع :۱۲۵۷]

اس مقام پریہ وضاحت کردیناضروری ہے کہ ابوداؤد کی روایت میں ایک راوی مجہول ہے جبکہ ترمذی کی روایت میں انقطاع ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے خودبیان کیا ہے، تاہم اس قسم کی روایت کوبطورتائید پیش کیاجاسکتا ہے۔علامہ بیہقی رحمہ اللہ  نے اپنی تالیف میں ایک باب بایں الفاظ قائم کیاہے کہ ’’جوشخص قربانی کاجانورخریدنے کے بعد اسے تبدیل کرلیتا ہے۔‘‘ پھراس کے تحت ایک روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما سے ایک شخص کے بارے میں سوال ہواجوقربانی کاجانور خریدتا ہے، پھراسے فروخت کرکے اس سے موٹا تازہ خریدتا ہے توآپ رضی اللہ عنہ  نے رخصت کاذکرفرمایا ،اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد، ص:۲۱م ج۴]

ان روایات کے پیش نظرقربانی کاجانور فروخت کرکے اس سے بہترخریداجاسکتا ہے اورکسی بہترجانورسے اس کاتبادلہ کیاجاسکتا ہے ۔

اورجوحضرات قربانی کاجانورمتعین کرنے کے بعد اسے فروخت یاتبادلہ کوناجائز کہتے ہیں، ان کاموقف ہے کہ قربانی چونکہ وقف کی طرح ہے۔ اس لئے اس میں خریدوفروخت یاتبادلہ جیسا تصرف درست نہیں ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ہدی کے طورپر ایک عمدہ اونٹ کاانتخاب کیا،بعد میں کسی نے اس کی تین سودینار کی قیمت لگادی ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اوربتایا کہ میں ایک عمدہ اونٹ ہدی کے طورپر مکہ مکرمہ بھیجنے کاپروگرام بناچکاہوں۔اب مجھے اس کاتین سودینار ملتا ہے، کیامیں اسے فروخت کرکے مزید اونٹ خریدسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا :’’نہیں تم اسی کو ذبح کرو۔ ‘‘ [ابوداؤد ، المناسک: ۱۷۵۶]

اس روایت کوامام احمد رحمہ اللہ  نے بھی بیان کیا ہے، لیکن اس میں عمدہ اونٹ کے بجائے بختی اونٹ کا ذکر ہے، جس کی گردن ذرالمبی ہوتی ہے اوروہ بھی بہترین اونٹوں میں شمارہوتا ہے۔     [مسند امام احمد، ص: ۱۴۵،ج۴]

منتقی الاخبار میں اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا گیا ہے۔ کہ ہدی کومتعین کرنے کے بعد اسے بدلنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ  اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ ہدی کی بیع درست نہیں ہے، خواہ اس جیسی یاا س سے بہتر کاتبادلہ مقصود ہو ۔    [نیل الاوطار، ص:۱۸۵،ج ۵]

چنانچہ قربانی بھی ہدی کی طرح ہے۔ اس بنا پر قربانی کا جانور بھی فروخت یاتبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ان حضرات کاکہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ حدیث اس مسئلہ پرواضح نہیں ہے، نیز محدثین کے قائم کردہ معیارصحت پربھی پوری نہیں اترتی، کیونکہ اس میں ایک راوی شبیب بن غرقد کہتے ہیں کہ میں نے حی، یعنی قبیلہ سے سناجوعروہ بارقی سے بیان کرتا ہے، اس قبیلہ کے افراد کی تعیین نہیں ہو سکی، لہٰذا اس ’’جہالت‘‘ کی وجہ سے یہ حدیث قابل استدلال نہیں ہے، چنانچہ چندایک ائمۂ حدیث نے اس حدیث پراعتراضات کیے ہیں جن میں علامہ خطابی اورامام بیہقی سرفہرست ہیں ۔[فتح الباری، ص:۷۷۴ ،ج۶]

 جہاں تک بخاری کی حدیث کے ضعف کامسئلہ ہے اس کے متعلق محدثین کے فیصلے کے مطابق جس راوی کوامام بخاری رحمہ اللہ  اپنی صحیح میں لائے ہیں وہ جرح وتعدیل کاپل عبورکرچکا ہے، یعنی امام بخاری رحمہ اللہ  اس کے متعلق خوب چھان پھٹک کرنے کے بعد اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں، لہٰذ ااس حدیث پربلاوجہ اعتراض درست نہیں ہے۔ ہاں، علامہ خطابی اورامام بیہقی نے اس حدیث کوغیر متصل قرار دیا ہے ۔اس کاجواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے دیا ہے کہ جب سماع کی تصریح موجودہے تواسے مرسل یامنقطع کیونکر کہاجاسکتا ہے بلکہ یہ روایت ایسی متصل ہے جس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، پھر اس ’’مبہم حی ‘‘کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک جماعت سے سناہے کہ جس کے کم ازکم تین افراد ہیں۔     [فتح الباری ،ص: ۷۷۴،ج۶]

پھرآگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ  کی شرط کے عین مطابق ہے کیونکہ عام طورپر ایک قبیلہ کاجھوٹ پراتفاق کرلیناناممکن ہے ۔     [فتح الباری، ص: ۷۷۵،ج ۶]

پھر اس حدیث کے متابعات وشواہد بھی ملتے ہیں جواس کی تائید کرتے ہیں جن میں ’’حی ‘‘کے بجائے ابو لبید لمازہ بن زیاد، حضرت عروہ بارقی رضی اللہ عنہ  سے نقل کرتے ہیں۔    [مسند امام احمد، ص:۳۷۶، ج۴]

امام منذری رحمہ اللہ  اس حدیث پربحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ  بکری خریدنے والی اس روایت کوابولبید لمازہ بن زیاد سے بیان کرتے ہیں جوحضرت عروہ بارقی سے بیان کرتے ہیں اس طریق سے یہ روایت حسن قرارپاتی ہے۔                                 [مختصرابو داؤد، ص: ۵۱،ج ۵]

اس متابعت کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام کی حدیث کوبطورشاہد پیش کیا جاسکتا ہے ۔ الغرض یہ حدیث صحیح ہے اوراس میں کسی طرف سے ضعف کاشائبہ تک نہیں ہے، البتہ مانعین کی طرف سے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کی جوحدیث پیش کی گئی ہے اس کے متعلق ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں :

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے اس کے ناقابل حجت کی طرف اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں کہ محدث ابن خزیمہ نے اس حدیث کواپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن اس سے حجت لینے میں توقف کیاہے۔     [تہذیب، ص:  ۱۲۱،ج۲]

اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس روایت میں ایک راوی جہم بن جارود ہے جوحضرت سالم بن عبداللہ سے بیان کرتا ہے۔اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس جہم کاحضرت سالم سے سماع معروف نہیں ہے ۔     [تاریخ الکبیر،ص: ۲۳۰،ج۲القسم الثانی ]

  اس کے علاوہ جہم بن جارود بھی غیر معروف راوی ہے، چنانچہ اس کے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے تابعین سے روایت کرتا ہے۔     [دیوان الضعفاء ،ص :۴۷،رقم:۷۹۳]

 نیز فرماتے ہیں کہ اس راوی میں جہالت ہے خالد بن ابی یزید کے علاوہ اس سے اورکوئی راوی بیان نہیں کرتا ۔ [میزان الاعتدال، ص:۴۲۶ ،ج۳]

 محدثین کے ہاں کسی راوی کی جہالت صرف اسی صورت میں دورہوسکتی ہے کہ کم ازکم اس سے بیان کرنے والے دوثقہ راوی ہوں۔ اما م ذہبی رحمہ اللہ  نے مذکورہ بات کہہ کراس بات کی توثیق کی ہے کہ اس کی جہالت بدستور قائم ہے کیونکہ اس سے صرف ایک راوی بیان کرتا ہے اورمجہول کی روایت ناقابل قبول ہوتی ہے۔ بلاشبہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے اس راوی کوچھٹے درجے کامقبول راوی بنایا ہے۔    [تقریب ،ص:۱۳۵، ج۱]

لیکن اس لفظ سے اکثراہل علم دھوکہ کھاجاتے ہیں ،حالانکہ اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے راوی کی مرویات متابعت کے بغیر قبول نہیں ہوتیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے مقدمہ میں زکوٰۃ کی درجہ بندی کرتے ہوئے وضاحت کی ہے ’’چھٹے درجے سے مراد وہ راوی ہیں جن سے بہت کم احادیث مروی ہیں لیکن ان میں کوئی ایساسقم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کی مرویات کوردکردیاجائے ۔ ایسے حضرات کے متعلق ’’مقبول‘‘کا لفظ استعمال ہوگا جس کامطلب یہ ہے کہ اگرمتابعت ہوتومقبول بصورت دیگر ان کی مرویات کمزور ہوں گی ۔‘‘    [مقدمہ ،ص: ۵]

زیر بحث حدیث کی متابعت نہیں مل سکی اورنہ ہی اس کی تائید میں کوئی شاہد پیش کیاجاسکتا ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ  اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ محدث ابن قطان رحمہ اللہ  نے اس حدیث کوبایں وجہ موصول قراردیا ہے کہ اس کے راوی جہم بن جارودکے حالات کے متعلق کوئی پتہ نہیں چل سکا اوراس سے بیان کرنے والابھی ابوعبدالرحیم خالد بن ابی یزید نامی ایک راوی ہے۔       [تہذیب السنن، ص: ۲۹۲، ج۲]

محدث ابن خزیمہ نے بھی اس حدیث کے متعلق اظہار ترددقرارفرمایاہے کہ جہم بن جارودایک ایساراوی ہے کہ غیرکی وجہ سے اس کی بیان کردہ روایت کوبطوردلیل پیش کیاجاسکتاہے۔     [صحیح ابن خزیمہ ،ص: ۲۹۱،ج۴]

صحیح ابن خزیمہ پرتعلیق ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے لکھی ہے اورمحدث البانی رحمہ اللہ  نے نظرثانی کے فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ صاحب تعلیق نے اس کی سند کے متعلق لکھا ہے کہ ضعیف ہے، اگرچہ حافظ احمد شاکر نے اس کی سند کوصحیح قراردیا ہے۔ [مسند امام احمد، ص:۱۴۴، ج۹]

                 تاہم مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ہمیں اس کی صحت تسلیم کرنے میں تردد ہے۔ اس کی صحت تسلیم کرنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہدی کاجانور اگرمتعین ہوجائے تواسے تبدیل کرنادرست نہیں ،لیکن یہ پابندی قربانی کے جانور میں عائد کرناکسی صورت میں درست نہیں ہے مقصد کے اشتراک سے یہ کب لازم آتا ہے کہ ان دونوں کے احکام بھی ایک جیسے ہوں ، ہمارے نزدیک ہدی اورقربانی کے جانور میں درج ذیل کئی ایک وجوہ سے فرق ہے ۔

1۔  ہدی کے لئے جگہ کاتعین ہے، یعنی وہ جانور جواللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے لئے بیت اللہ کی طرف ہدیہ روانہ کیاجائے جبکہ قربانی کاجانور ان مکانی حددوقیود کاپابندنہیں ہے ۔

2۔  ہدی کے لئے اشعاراورتقلید ضروری ہے جبکہ قربانی کے جانور میں یہ پابندی نہیں ہے ۔

3۔  ہدی صرف ایک آدمی کی طرف سے ہوسکتی ہے جبکہ قربانی میں تمام اہل خانہ شریک ہوتے ہیں، خواہ ان کی تعداد کتنی ہو ۔

4۔  بعض حالات میں انسان ہدی کاگوشت خودنہیں کھاسکتا اورنہ ہی اپنے رفقا کوکھلاسکتا ہے جبکہ قربانی کاجانور خودبھی کھایا جاسکتا ہے اوردوسروں کوکھلانے میں بھی چنداں حرج نہیں ہے ۔

5۔  ہدی کے اونٹ میں سات شریک ہوسکتے ہیں جبکہ قربانی کے اونٹ میں دس تک شراکت جائز ہے ۔

6۔  ہدی کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں جبکہ قربانی کے لئے مخصوص ایام ہیں ۔

7۔  قربانی کرنے والے کے لئے حکم ہے کہ وہ ذوالحجہ کاچاندنظر آنے کے بعد ذبح کے وقت تک اپنی حجامت وغیرہ نہ بنائے جبکہ بعض حالات میں ہدی بھیجنے والے پراس قسم کی کوئی پابندی نہیں ۔

8۔  علامہ ابن حزم رحمہ اللہ  کے نزدیک ہدی کاجانورعیوب سے پاک ہوناضروری نہیں جبکہ قربانی کے جانور میں عیوب کا ہونا جائز نہیں ہے۔

9۔  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے   9   ؁ھ میں ہدی کے جانور حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ کئے جبکہ مدینہ میں آپ نے قربانی بھی دی اس سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔

10۔  ہدی کاجانورتبدیل کرنادرست نہیں جبکہ قربانی میں ایسا کیاجاسکتا ہے ۔(تلک عشرۃ کاملۃ )

محدثین کرام نے کتب حدیث میں ہدی کے متعلق اس طرح کے عنوانات قائم کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدی کاجانور تبدیل کرناجائز نہیں ہے۔ (منتقی الاخبار) لیکن کسی محدث نے قربانی کے متعلق اس طرح کاباب قائم نہیں کیا جس کا واضح  مطلب یہ ہو کہ ان دونوں کے احکام میں بہت فرق ہے اورکسی کودوسرے پرقیاس نہیں کیاجاسکتا ۔

مذکورہ حدیث پرایک اور پہلو سے بھی غورکیاجاسکتا ہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے ایک عمدہ بختی اونٹ خریداجب اس کی قیمت تین سو دینار لگی توآپ نے اسے فروخت کرکے اس کی قیمت کے عوض ایک عام اونٹ خریدنے کاپروگرام بنایا ، تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ وہ عمدہ اونٹ ہی اللہ کی راہ میں ذبح کرو،بہترین اونٹ کے بدلے عام اونٹ ہدی کے لئے لینا درست نہیں۔ چنانچہ محدث ابن خزیمہ نے اس حدیث پربایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔’’زیادہ قیمت کی عمدہ ہدی دینے کا بیان۔‘‘

 یہ معنی کرنے سے مذکورہ حدیث مانعین کے لئے دلیل نہیں بن سکتی ،مختصر یہ ہے کہ قربانی کے تبادلہ کی چارصورتیں ممکن ہیں۔

1۔  صاحب حیثیت وہ جانوربھی ذبح کرے جو اس نے پہلے خرید کیا ہے اوربہترین عمدہ جانوراپنی گرہ سے ہی خرید کرذبح کرے ۔

2۔  اسے فروخت کرکے اس میں اپنی طرف سے کچھ رقم ملاکربہترین جانور خریدکرذبح کردیاجائے ۔

3۔  عدم استطاعت کی صورت میں خرید ے ہوئے جانور کوہی ذبح کردے ۔

4۔  یہ جائز نہیں ہے کہ اسے بیچ کرکچھ رقم پس اندازکرے اوراس سے کم قیمت کے عوض کوئی معمولی جانور خریدکرذبح کرے ،اس قسم کی سودابازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:375

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ