سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(363) خصی جانور کی قربانی

  • 12354
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2071

سوال

(363) خصی جانور کی قربانی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نام نہادجماعت المسلمین کی طرف سے ہمیں ایک پمفلٹ موصول ہوا کہ خصی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے۔مرسل نے اس کی وضاحت کے متعلق لکھا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس پرفتن دورمیں تحقیق کی آڑ لے کر مسلمات کاانکار اوربدعات ورسوم کورواج دیاجارہاہے۔جماعت المسلمین کی طرف سے خصی جانور کوقربانی کے لئے ناجائز قراردیا جانابھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ہم نے پہلے بھی اس سلسلہ کے متعلق لکھا تھا کہ کسی جانور کوخصی کرنے کے مثبت اورمنفی دوپہلوہیں۔مثبت پہلو یہ ہے کہ خصی جانور کاگوشت عمدہ اوربہتر ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ غیر خصی جانور کے گوشت میں ایک ناگوارقسم کی بوپیداہوجاتی ہے ۔جس کے تناول میں تکدرپیداہوتا ہے اوراس کامنفی پہلو یہ ہے کہ اس کے خصی کرنے سے اس کی قبولیت ختم ہوجاتی ہے اوروہ افزائش نسل کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ قربانی کاتعلق مثبت پہلو سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خودقربانی کے لئے بعض اوقات خصی جانور کاانتخاب کیا ہے ۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم دوایسے مینڈھوں کی قربانی دیتے جوخصی اورگوشت سے بھرپور ہوتے ۔ [مسند امام احمد :۵/۱۹۶]

قربانی کے ذریعے چونکہ اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہوتا ہے، اس لئے قربانی کاجانور واقعی بے عیب اورتندرست ہونا چاہیے۔ بلا شبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے چندایک ایسے عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے جوقربانی کے لئے رکاوٹ کاباعث ہیں ۔تاہم قربانی کے لئے جانور کاخصی ہوناکوئی عیب نہیں ہے ۔اگرایسا ہوتا تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جانور کوقربانی کے لئے قطعی طورپر منتخب نہ فرماتے ۔حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’قربانی کے جانور کاخصی ہوناکوئی عیب نہیں بلکہ خصی ہونے سے اس کے گوشت کی عمدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ‘‘     [فتح الباری:۷/۱۰]

اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ نام نہاد جماعت المسلین کی طرف سے شائع کردہ پمفلٹ بددیانتی پرمبنی ہے ،جس میں خصی جانور کی قربانی کوناجائز قراردیا گیا ہے ۔ہم جانوروں کوخصی کرنے کے متعلق اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں۔

متقد مین علما میں اس کے متعلق اختلاف ہے ۔ایک گروہ جانور وں کے خصی کرنے کے عمل کومطلقاًجائز قراردیتا ہے، خواہ وہ جانورحلال ہوں یاحرام ۔جبکہ کچھ علما کی رائے ہے کہ خصی کرنے کی حرمت صرف حرام جانوروں سے متعلق ہے۔ان کے نزدیک حلال جانوروں کاخصی کرناجائزہے ۔جوحضرات حرمت کے قائل ہیں ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :

٭  اولاد آدم کوگمراہ کرنے کے متعلق شیطان لعین کاایک طریقہ واردات بایں الفاظ بیان ہوا ہے ’’میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ میرے کہنے پراللہ کی ساخت میں ردوبدل کریں ۔‘ ‘    [۴/النسآء:۱۱۹]

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کے نزدیک اس سے مراد جانوروں کاخصی کرنا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما حضرت انس  رضی اللہ عنہ اورتابعین میں سے حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ;کی یہی رائے ہے۔ [تفسیرابن کثیر]

٭  علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے مسند البزار کے حوالہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کوخصی کرنے کی شدت سے ممانعت کی ہے۔    [نیل الاوطار: ۸/۲۴۹]

٭  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں ،بیلوں ،بکروں اورگھوڑوں کوخصی کرنے سے منع فرمایا ہے۔     [شرح معانی الآثار :۲/۲۳۲]

دوسرے حضرات کی طرف سے ان دلائل کااس طرح جواب دیاگیا ہے کہ آیت کریمہ کی تفسیر میں جانوروں کوخصی کرنے کی بات کسی صحیح یاضعیف روایت سے مرفوع ثابت نہیں ۔جہاں تک کہ سلف کے اقوال کاتعلق ہے تواس کے متعلق خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  ، حضرت حسن بصری ،حضرت مجاہد ،حضرت قتادہ اورحضرت سعید بن مسیب رحمہم اللہ  سے مروی ہے کہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے، یعنی وہ حرام کو حلال اورحلال کوحرام ٹھہرائیں گے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  نے اپنی مایہ ناز تفسیر میں نقل فرمایا ہے۔جب سلف صالحین سے آیت مذکورہ کی مختلف تفاسیر منقول ہیں تو اس کی تفسیر میں جانوروں کوخصی کرنے کی بات حتمی طورپرنہیں کہی جاسکتی۔ چونکہ اس کی تفسیر میں کوئی مرفوع حدیث موجودنہیں ۔لہٰذا ’’لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ‘‘اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کے پیش نظر آیت  مذکورہ میں خلق اللہ سے مراد اللہ کا دین ہی ہے ۔

مسند البزار کے حوالہ سے جوروایت بیان ہوچکی ہے تواس سے حلال جانوروں کاخصی کرنامراد نہیں ہے ،کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل سے ایک حرام کام کی تائید کریں ۔حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کے متعلق مروی ہے کہ ان کے پاس ایک خصی غلام فروخت ہونے کے لئے لایاگیا توانہوں نے فرمایا کہ میں خصی کرنے کے عمل کی تائید وحمایت نہیں کرتا ۔ [شرح معانی الآثار : ۲/۳۸۳]

گویاانہوں نے اس کی خریداری کواس عمل کی تائید خیال کیا ہے ۔اس بنا پر اگرحلال جانوروں کاخصی کرنا بھی ناجائز ہوتاتورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم خصی شدہ جانوروں کی قربانی ہرگزپسند نہ کرتے ۔لہٰذا خصی کرنے کی ممانعت اورخصی جانوروں کی قربانی کرنے میں یہی تطبیق ہے کہ جن جانوروں کاگوشت کھایا جاتا ہے ان کاخصی کرنا درست ہے ،مگرجن جانوروں کاگوشت حرام ہے ان کاخصی کرنا درست نہیں ہے ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ ان کااپناقول ہے جب ہم علمائے متقد مین کودیکھتے ہیں توان میں سے بیشترحلال جانوروں کے خصی کرنے کے قائل ہیں اورفاعل ہیں۔ حضرت طاؤس رحمہ اللہ  نے اپنے اونٹ کوخصی کروایا تھا، نیز حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  کاقول ہے کہ اگرنرجانورکے کاٹنے کااندیشہ ہوتواسے خصی کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔     [شرح معانی الآثار :۲/۳۸۳]

امام نووی رحمہ اللہ  نے شرح مسلم اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسی موقف کواختیا رکیا ہے ۔مختصر یہ ہے کہ قربانی کے لئے خصی جانور کوذبح کیاجاسکتا ہے اور جن روایات میں امتناعی حکم ہے وہ ان جانوروں سے متعلق ہے جن کاگوشت نہیں کھایا جاتا ہے ۔

نوٹ:سردست ہمیں مسند البزار دستیاب نہیں ہوسکی ،تاکہ اس کی سند کے متعلق پتہ لگایا جاسکتا کہ آیاحدیث قابل حجت ہے یانہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:371

تبصرے