سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(360) تین طلاقوں کے بعد رجوع ممکن نہیں

  • 12351
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1029

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ملک سے باہر تھا میرے والد نے مجھے لکھا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدو میں نے ان کی اطاعت کرتے ہوئے طلاق نامہ لکھ کر والد صاحب کو بھیج دیا۔ لیکن انہوں نے میری بیوی کو اس کے متعلق کچھ نہ بتایا۔ ایک سال بعد جب میں واپس آیا تو بیوی کے ساتھ راضی خوشی رہنے لگا۔ اس کے بعد میرا بیوی سے کوئی جھگڑا ہوا تو میں نے بیوی کو پھر طلاق دیدی۔ بعد ازاں ہماری صلح ہو گئی۔ آج سے چند روز پہلے ہمارا پھر کسی بات پر تنازعہ ہوا تو میں نے جذبات میں اکر پھر طلاق دیدی۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ میں اب بیوی سے رجوع کرسکتا ہوں یا نہیں؟ کیا پہلی طلاق شمار ہو گی جس کا بیوی کو علم نہ تھا کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دے کر میری پریشانی کو دور کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں تین چیزوں کے متعلق وضاحت کرنا ہے:

1۔  والد کے کہنے پر طلاق دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے۔

2۔   کیا طلاق کے متعلق بیوی کو علم ہونا ضروری ہے۔

3۔  وقفہ ، وقفہ میں تین طلاق دینے سے رجوع کی گنجائش رہتی ہے۔

عام طور پر ہمارے ہاں یہ ضروری خیال کیا جاتاہے کہ اگر والد طلاق کے متعلق اپنے بیٹے کو حکم دے تو والد کی اطاعت کرتے ہوئے طلاق دے دینی چاہیے۔ اس کے متعلق حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما سے متعلق ایک واقعہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میری ایک بیوی تھی۔ جسے میرے والد محترم حضرت عمر  رضی اللہ عنہ ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اسے طلاق دیدو۔ میں نے اسے طلاق دینے سے انکار کردیا۔ انہوں نے رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ ’’اپنے باپ کا کہا مانو۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے طلاق دیدی۔[ مسند امام احمد، ص:۲۰،ج۲]

 اس سلسلہ میں ہما را موقف یہ ہے کہ والد کے کہنے پر طلاق دینے کی دو صورتیں ہیں۔

1۔  والد کوئی شرعی سبب بیان کرے کہ تمہاری بیوی اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔ غیر مردوں سے میل جول رکھتی ہے وغیرہ۔ تو ایسی صورت میں بیٹے پر لازم ہے کہ وہ اسے طلاق دیدے۔

2۔  والد کوئی شرعی سبب بیان نہیں کرتا بلکہ اپنی انا نیت یا ضد کی وجہ سے بیٹے کو طلاق دینے کا کہتا ہے تو ایسی صورت میں طلاق دینا ضروری نہیں ۔ جبکہ اس کی بہو اخلاقی لحاظ سے درست ہو، چنانچہ ابن عمر  رضی اللہ عنہما کے واقعہ میں اس قسم کا اشارہ ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے کسی خاص مصلحت اور حکمت کے پیش نظر اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیا تھا، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے شکایت کی کہ’’میرے بیٹے نے ایسی عورت سے نکاح کررکھا ہے، جسے میں اس کے لئے ناپسند کرتا ہوں‘‘۔[مسند امام احمد،ص:۴۲،ج۲]

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ الساعاتی لکھتے ہیں کہ آپ نے اس عورت کو اپنے بیٹے کے لئے ا س لئے ناپسند کیا کہ وہ ان کے لئے موزوں اور مناسب نہ تھی۔اس معاملہ میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے ضرور کسی مصلحت کو ملحوظ رکھا ہو گا، پھر آپ الہام الہٰی کے حامل بھی تھے۔     [الفتح الربانی، ص: ۴،ج۱۷]

                موجودہ دور میں جبکہ روشن خیالی ہمارے معاشرہ میں اپنا راستہ ہموار کررہی ہے۔ ضروری نہیں کہ صر ف والد کے کہنے پر بیوی کو طلاق دیدی جائے، ہاں، اگر کوئی وجہ بیان کی جائے تو اور بات ہے۔

                دوسری بات یہ ہے کہ طلاق دینا خاوند کا حق ہے۔ خاوند نے اگر از خود یا اپنے باپ کے کہنے پر اپنے اس حق کو استعمال کیا ہے اور طلاق کے تیر کو اپنے ترکش سے نکال پھینکا ہے۔ اب بیوی کو علم ہو یا نہ ہو وہ تیر اپنے نشانہ پر بیٹھ جائے گا۔ چونکہ بیوی نے عدت گزارنا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ طلاق کے متعلق بیوی کو علم ہونا چاہیے۔ لیکن نفاذ طلاق کے لئے یہ شرط نہیں ہے۔ اگر خاوند بیوی کے علم میں لائے بغیر ایسی طلاق سے رجو ع کرلیتا ہے تو اس کا رجوع صحیح ہے، تاہم وہ طلاق شمار کی جائے گی۔ اس میں کسی اہل علم کو اختلاف نہیں ہے۔

تیسری بات یہ کہ وقفہ وقفہ سے بیوی کو اگر تین طلاق دیدی جائیں تو عام حالات میں اب رجوع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے۔

صورت مسئولہ میں خاوند نے وقفہ وقفہ کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کا نصاب پورا کرلیا ہے۔ اب اس سے رجوع نہیں ہو سکتا، اس سے رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ آباد ہونے کی نیت سے کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔ نکاح کرتے وقت پہلے خاوند کی طرف واپسی کی قطعاً کوئی نیت نہ ہو۔ کیونکہ ایسے نکاح کو سازشی نکاح کہا جاتا ہے جس خاوند سے اس کے گھر آباد ہونے کی نیت سے نکاح کیا ہے، اگر وہ فوت ہو جائے یا اسے طلاق دیدے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے از سر نو نکاح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’پھر اگر مرد(تیسری) طلاق بھی دیدے تو اس کے بعد وہ عورت اس کے لئے حلال نہ رہے گی۔ حتی کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرے، ہاں! اگر دوسرا خاوند اسے طلاق دیدے تو پھر پہلا خاوند اور یہ عورت دونوں اگر یقین رکھتے ہیں کہ حدود اللہ کی پابندی کریں گے تو وہ آپس میں رجوع کرسکتے ہیں، اس سلسلہ میں ان پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔     [۲/البقرہ:۲۳۰]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:367

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ