سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(359) کیا خلع میں خاوند کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے؟

  • 12350
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1104

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں عرصہ سولہ سال سے کویت میں مقیم ہوں اور میرے بیوی بچے پاکستان میں ہیں، میں انہیں باقاعدہ خرچہ بھیجتا ہوں، البتہ آخری تین سال میں نے کسی وجہ سے خرچہ وغیرہ بھیجنا بند کیا ہے۔ میری بیوی نے عدالت کے ذریعے خلع لے لیا ہے، جبکہ مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اس قسم کے خلع کا شرعاً کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآنی صراحت کے مطابق عورت مرد کے لئے اور مرد عورت کے لئے لباس ہے، اگر بیوی شوہر کو کچھ دے دلا کر اس لباس کو اتار پھینکے تو اسے خلع کہتے ہیں۔ اگر عورت اپنے شوہر کو اس شکل و صورت یا اس کے اخلاق و کردار کی وجہ سے ناپسند کرتی ہو اور ڈرتی ہو کہ وہ اس کی فرمانبرداری میں اللہ کا حق ادا نہیں کرسکے گی تو اس کے لئے جائز ہے کہ حق مہر بطور فدیہ واپس کرکے اس سے خلع لے لے اور جدائی اختیار کرے۔صورت مسئولہ میں اخراجات کی ادائیگی او ر دیگر حقوق کی بجا آوری خاوند کے ذمے تھی جو اس نے آخری تین سالوں میں پوری نہیں کی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اگر عورت مجبور ہو کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو یہ اس کا حق ہے، اگرچہ عائلی زندگی میں طلاق دینے کا حق خاوند کو سونپا گیا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہوجائیں کہ باہمی اکھٹے رہنے کی صورت باقی نہ رہے اور شوہر بھی طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو، ایسے حالات میں اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند سے خلع لے کر فارغ ہو جائے ۔ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں:

1۔  میاں بیوی باہمی رضا مندی سے اپنے گھر میں ہی کوئی معاملہ طے کرلیں۔ اس کے بعد خاوند بیوی سے وصولی کے بعد اسے طلاق دیدے۔

2۔  خاوند طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو عورت عدالت کی طرف رجوع کرے، پھر عدالت فریقین کے بیانات سننے کے بعد ڈگری جاری کرے۔

صورت مسئولہ میں خاوندکو اطلاع دیے بغیر یک طرفہ ڈگری جاری کی گئی ہے۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ خاوند پر لگائے گئے الزامات سے اسے آگاہ کرتی ، تاکہ وہ اس کی وضاحت کرتا۔ تاہم سوال میں اس بات کی وضاحت ہے کہ خاوند نے عرصہ تین سال سے خرچہ وغیرہ بند کیا ہے۔ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے اور انہیں تکلیف دینے سے منع کرتا ہے۔ اپنی بیوی کو خرچہ نہ دینا اس سے بڑھ کر اور کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سربراہان کو لکھا تھا کہ جو آدمی اپنی عورتوں سے غائب ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان کے اخراجات برداشت کریں یا انہیں طلاق دے کر فارغ کردیں۔ طلاق دینے کی صورت میں بھی پہلی مدت کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔      [زاد المعاد فی ہدی خیر العباد]

اگرچہ عدالت کی یک طرفہ ڈگری ہے، تاہم نافذ العمل ہے ۔ اگر فریقین باہمی اتفاق پر آمادہ ہیں تو نئے نکاح سے دوبارہ رشتہ بحال ہو سکتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:366

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ