السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہندہ کی شادی زید سے ہوئی دوسال بعد ان میں اختلافات پیدا ہوگئے اورہندہ نے زید سے علیحدگی کامطالبہ کر دیا اوراپنی مرضی سے بذریعہ عدالت خلع لے لیا۔اب ہندہ دوبارہ زید کے ہاں آباد ہوناچاہتی ہے، کیاکتاب وسنت کی رو سے ایسا ممکن ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عارضی زندگی میں شرعی طورپر طلاق دینا خاوندکاحق ہے لیکن اگرمیاں بیوی کے تعلقات اس حدتک کشیدہ ہو جائیں کہ باہمی اتفاق کی کوئی صورت نہ رہے اورخاوند طلاق دینے پر بھی آمادہ نہ ہو توایسے حالات میں اسلام نے عورت کوحق دیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کوکچھ دے دلاکر اس سے خلاصی حاصل کرے، اسے شریعت میں خلع کہتے ہیں ۔اس کے لئے شرط یہ ہے کہ میاں بیوی کوازدواجی زندگی میں حدوداللہ کے پامال ہونے کااندیشہ ہو۔اس وضاحت کے بعد دین اسلام میں بیوی کے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پردوصورتیں ایسی ہیں کہ وہ عام حالات میں اکٹھے نہیں ہوسکتے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ جب خاوند اپنی زندگی میں وقفے وقفے کے بعد تین طلاقیں دے ڈالے توہمیشہ کے لئے مطلقہ عورت اپنے سابقہ خاوند کے لئے حرام ہوجاتی ہے، البتہ تحلیل شرعی کے بعد اکٹھا ہونے کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ تحلیل شرعی مروجہ حلالہ نہیں کیونکہ ایساکرنا حرام اورباعث لعنت ہے ۔
٭ لعان کے بعد جوجدائی عمل میں آتی ہے وہ آیندہ زندگی میں باہمی نکاح کرنے کے لئے رکاوٹ کا باعث ہے کسی بھی صورت میں ان کاآپس میں نکاح نہیں ہوسکتا ہے، جیساکہ حدیث میں ہے ۔ان دوصورتوں کے علاوہ کوئی ایسی صورت نہیں کہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ازدواجی تعلقات ختم ہونے پر دوبارہ میاں بیوی کانکاح نہ ہوسکتا ہو۔صورت مسئولہ میں یہاں بیوی کی علیحدگی بذریعہ خلع عمل میں آئی ہے، لہٰذااگرعورت اپنے موقف سے دستبردارہوکر دوبارہ اپنے سابقہ خاوندکے ہاں آبادہونے کی خواہش مند ہے توشرعی نکاح کرنے کے بعد ازدواجی زندگی گزارنے میں شرعاًکوئی قباحت نہیں ہے، البتہ نکاح جدید میں ان تمام شرائط کوملحوظ رکھناہوگا جونکاح کے لئے ضروری ہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب