السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کاکسی جوان عورت کے گھر میں آناجاناتھا اوروہ اس کے رشتہ کے لئے کوشش کرتا رہا ،لیکن اس میں وہ کامیاب نہ ہوسکا یہ دونوں مقدمات زناکاارتکاب کرتے رہے لیکن زنا کی نوبت نہ آئی ،کیاوہ آدمی اس عورت کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم میں نہ صرف زناکوحرام کیا ہے بلکہ ا س کے تمام ذرائع و وسائل اورمقدمات کو بھی حرام قراردیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’زنا کے قریب نہ پھٹکو کیونکہ وہ بہت برافعل اورانتہائی برا راستہ ہے ۔‘‘ [۱۷/بنی اسرائیل :۳۲]
اس آیت کریمہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمان صرف فعل زناہی سے بچنے پراکتفا نہ کریں بلکہ زناکے مقدمات اوراس کی ابتدائی حرکات واسباب سے بھی دور رہیں جوانہیں اس راستہ کی طرف لے جاتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرم زناکی سنگینی کویوں بیان فرمایاہے ’’کہ لذت بھری نگاہ سے کسی عورت کی طرف دیکھنا یہ آنکھوں کی بدکاری ہے اور بدکاری کی نیت سے مزے لے لے کرلوچ دارگفتگو کرنازبان کی بدکاری ہے جبکہ شرم گاہ سے اس فعل بد کوانجام دینااس جرم میں شریک تمام اعضا کے لئے مہر تصدیق ثبت کرنا ہے۔‘‘ شریعت ان مقدمات زنااور اس کے اسباب ووسائل کوفعل زنا قرارنہیں دیتی کہ ان کے بجالانے پر حدزناجاری کردی جائے جب تک عملی طورپر اس سے زنا کاارتکاب نہ ہواسے مجرم قرار نہیں دیاجاسکتا ۔صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جوطریق کاراختیار کیا ہے اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا ،بلکہ وہ انتہائی خطرناک اوربرارستہ تھا، تاہم اس سے بالفعل زنا کاصدورنہیں ہوا، اس لئے مذکورہ شخص اس عورت کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے جس سے مقدمات زنا انجام دیتا رہا ہے، کیونکہ قرآن کریم نے ایسے خونی، رضاعی اورسسرالی رشتوں کے متعلق بڑی تفصیل سے ہمیں آگاہ کیا ہے جوانسان پرحرام ہیں۔ ان میں اس قسم کے تعلقات رکھنے والی عورت کاتذکرہ نہیں ہے اورنہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی پابندی منقول ہے، لہٰذا مذکورہ شخص پرصرف اس لئے پابندی عائد کرنا کہ وہ مقدمات زناکامرتکب ہوا مناسب نہیں اوراس کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب