سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) تین طلاقوں کے بعد رجوع ممکن نہیں

  • 12339
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1145

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون کواس کے خاوند نے نکاح کے تین ماہ بعد جولائی ۱۹۸۰ء میں طلاق دیدی، پھررجوع کر لیا۔ اس کے سات سال بعد ۱۹۸۷ء میں پھرطلاق دی ،رشتہ داروں کی مداخلت سے میاں بیوی کے درمیان صلح ہوگئی ۔بعدازاں مارچ ۲۰۰۲ء میں رشتہ داروں کی موجودگی میں تیسری طلاق دے ڈالی ۔لیکن جب اس سے رابطہ کیاگیا تو اس نے کہاکہ میں نے صرف دوطلاقیں دی ہیں وہ تیسری طلاق سے انکار کرتا ہے جبکہ خاتون اوردیگررشتہ دار کہتے ہیں کہ اس نے تیسری دفعہ طلاق بھی دیدی ہے اب دریافت طلب بات یہ ہے کہ خاوند کے کہنے پردوطلاقیں ہوں گی یابیوی کی بات کوتسلیم کرتے ہوئے تین طلاق شمار کی جائیں گی، نیز اگرتین طلاقیں ہیں توکیاخاوند حق مہر واپس لینے کامجاز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہو کہ خاوند نے وقفہ وقفہ سے تین طلاقیں دے کر،طلاق کانصاب پوراکردیا ہے اب صلح یارجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔پہلی یادوسری طلاق کے بعد خاوند کورجوع کاحق ہوتا ہے جواس نے استعمال کرلیا ہے لیکن صورت مسئولہ میں خاوند کہتا ہے کہ میں نے باضابطہ طور پرصرف دوطلاقیں دی ہیں جبکہ بیوی کادعویٰ ہے کہ خاوند نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اوراس پر گواہ بھی موجودہیں۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر عورت کی بات کو تسلیم کیاجائے گا اور متنازعہ طلاق کوطلاق ہی شمار کرنامناسب ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگرعورت اپنے خاوند کی طرف سے طلاق کادعویٰ کرتی ہے اور اس پر ایک عادل گواہ پیش کرتی ہے توایسی صورت حال میں خاوند سے حلف لیاجائے گا ۔اگروہ حلف دے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس سے گواہ کی گواہی جھوٹی قرارپائے گی اوراگرخاوند قسم دینے سے انکار کردے تواس کے انکار کودوسرے گواہ کے قائم مقام قراردے کرطلاق کو نافذ کردیاجائے گا ۔‘‘     [سنن ابن ماجہ ،الطلاق:۲۰۳۸]

اس حدیث کے متعلق امام ابن ماجہ رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ ’’خاوند اگرطلاق کاانکارکرے توکیا کیا جائے؟‘‘ صورت مسئولہ میں اگر ایک گواہ ہوتا توخاوند کے حلف پر فیصلہ کیاجاسکتا تھا لیکن اس سوال میں دوتین گواہوں کے دستخط ثبت ہیں کہ خاوند نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی ہے ایسے حالات میں اگر گواہ عادل ہیں توتیسری طلاق واقع ہوچکی ہے اورخاوند کورجوع کرنے کاحق نہیں ہے اورنہ ہی رشتہ داروں کی صلح سے معاملہ حل ہوسکے گا کیونکہ تیسری طلاق کے بعد خاوند صلح، یعنی رجوع کے حق سے محروم ہوجاتا ہے اس موقف کوحافظ ابن قیم رحمہ اللہ  نے بہت وضاحت کے ساتھ اختیار کیا ہے۔     [زاد المعاد،ص: ۲۸۲،ج ۵ ]

اس تیسری طلاق کے بعدبیوی کے درمیان مستقل جدائی ہوجاتی ہے۔ عام حا لات میں ان کا آپس میں نکاح بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں خاوند کواپناحق مہر واپس لینے کی شرعاًاجازت نہیں ہے۔ حق مہر صرف خلع کی صورت میں واپس لیاجاسکتا ہے جبکہ مذکورہ صورت میں ایسا نہیں ہے ،بلکہ خاوند نے خود اپنے ارادہ سے تین طلاق دی ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:360

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ