سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(338) بیوی کو ماں ،بہن کہنا

  • 12329
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 3447

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی کوتین دفعہ ماں ، بہن کہہ دیا ہے کیا ایسے کلمات کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے، اگرہوجاتی ہے تو رجوع کی کیاصور ت ہوگی؟کتاب و سنت کی روشنی میں میری مشکل حل کرنے میں مدد کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عرب معاشرہ میں بسااوقات یہ صور ت پیش آتی تھی کہ جب میاں بیوی کاکسی معاملہ میں جھگڑاہوجاتا توخاوند غصہ میں آکر کہتا: ’’تومیرے لئے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے ۔‘‘مطلب یہ ہوتا ہے کہ تجھ سے مباشرت کرنامیرے لئے ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت کروں۔اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’ظہار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اسے ماں ،بہن اوربیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا آدمی اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جواس کے لیے حرام ہیں ۔اس فعل کانام ’’ظہار‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی بات کوناپسندید ہ اورجھوٹی بات قراردیا ہے اورکفارہ کے طورپر اس کی کچھ سزا بھی رکھی ہے، جس کی تفصیل سورۂ مجادلہ میں بیان ہوئی ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کوایسے کلمات کہنا ایک بہت بڑاگناہ اورحرام فعل ہے۔ اس کامرتکب سزا کاحق دار ہے۔ لیکن جوشخص اپنی بیوی کوماں یابہن کہہ دیتا ہے تشبیہ وغیرہ نہیں دیتا کیایہ صورت بھی ظہار ہوگی یانہیں ؟اس میں کچھ اختلاف ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کویہ کہتے ہوئے سنا کہ اپنی بیوی کوبہن کہہ کرپکاررہاتھا ۔اس پر آپ نے بطورغصہ فرمایا :’’کیا یہ تیری بہن ہے؟‘‘ آپ نے اسے ناپسند کرتے ہوئے منع فرمایا ہے ۔     [ابوداؤد ،الطلاق :۲۲۱۰]

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کوماں یابہن کہنے سے ظہار تونہیں ہوتا، البتہ سخت بے ہودہ بات ضرور ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ مالکی حضرات اسے بھی ظہار قراردیتے ہیں۔ حنابلہ کے ہاں اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر ایسے کلمات بحالت غصہ کہے جائیں توظہار ہوگا۔ اگر پیار ومحبت کی بات کرتے ہوئے ایسے کلمات کہہ دیے جائیں توانتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے لیکن اسے ظہارنہیں قراردیاجائے گا۔ صورت مسئولہ میں خاوند نے اپنی بیوی کو ماں، بہن کہا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ظہارنہیں ہے کیونکہ اس نے ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ نہیں دی ،جس پر اس کانظر ڈالنا حرام تھا۔ طلاق تو کسی صورت میں نہیں ہے چونکہ سائل نے ایک بے ہودہ اورناپسندیدہ بات کہی ہے، اس لئے اسے چاہیے کہ اس گناہ کی تلافی کے لئے صدقہ وخیرات کرے اور آیندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کرے ،کیونکہ ایساکرنامؤمن کی شان کے خلاف ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:353

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ