السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا اہل سسرال سے کچھ تنازعہ ہوا ،وہ ناراض ہوکرمیری بیوی کواپنے گھر لے گئے ہیں میں نے جذبات میں آکر اپنی بیوی کوطلاق لکھ دی ،لیکن اپنی بیوی کونہ بھیجی بلکہ سال بھروہ گھر میں پڑی رہی، پھرصلح کے نتیجہ میں میرے گھروالے میری بیوی کومیرے گھر لے آئے اوردوبارہ نکاح پڑھا دیاگیا، اس وقت بیوی کاکوئی سرپرست موجودنہ تھا کیاایسا نکاح درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہماری سمجھ میں بات نہیں آئی کہ تنازعہ اہل سسرال سے ہوتا ہے لیکن تختہ مشق بیوی کوبنایا جاتا ہے آخر اس صنف نازک کاکیاقصور ہے ؟دراصل ہم لوگ جذباتی اور بحرانی کیفیت کاشکارہیں اس کیفیت میں ہمیں اپنے آپ کاہوش نہیں رہتا کہ کیا کر رہے ہیں یاکیاکرناچاہیے۔ دیکھیے! سائل نے بیوی کے نام طلاق لکھ کرسال بھراپنے پاس رکھی ،اس کابیوی یااس کے والدین کو علم نہ ہونے دیا۔ اگروالدین کوعلم ہوجاتا توانہیں اپنی بیٹی کاگھربسانے کے لئے اپنی غلطی کااحساس ہوتا او راس کے تدارک کے لئے یقیناکوشش کرتے ممکن تھا کہ ’’عقدثانی‘‘ سے پہلے پہلے اپنی بیٹی کوخودواپس لے آتے لیکن سائل نے طلاق لکھ کراپنے پاس رکھ لی، سال بھر پڑی رہی ،عدت گزرنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی ضرورت پڑی ،وہ بھی ولی اورسرپرست کے بغیر، نکاح کا اہم رکن ولی کی اجازت ہے جواس نکاح ثانی میں موجودنہیں ۔اگرچہ انہوں نے صلح کی تحریک چلائی اوراپنی بچی کوواپس بھیج دیا،اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنی بچی کاگھرآباد کرنا مقصود ہے۔ وہ اس پرسرتاپاخوش ہیں، لیکن انہیں اندرونی معاملات کا قطعاًعلم نہیں ہے کہ سطح سمندر کی خاموشی کے نیچے کس قدر ہلچل برپا تھی۔نکاح جدید کے لئے چارچیزوں کاہوناضروری ہے:
1۔ بیوی کی رضامندی ۔ 2۔ حق مہرکا تعین۔
3۔ سرپرست کی اجازت۔ 4۔ گواہوں کی موجودگی۔
بہترتھا ان چارشرائط کوپورا کرتے ہوئے نکاح کیاجاتا ہے ۔ہمارے نزدیک اب اس کاحل یہ کہ اہل سسرال کے علم میں تمام معاملات لانے کے بعد انہیں اعتماد میں لیاجائے ،کیونکہ مسئلہ حلال وحرام سے تعلق رکھتا ہے ایسے معاملات میں ہمیں نہایت سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے۔ نکاح سوچ و بچار کا متقاضی ہے اورمسئلہ طلاق بڑی نزاکت کاحامل ہے ان دونو ں کوجذباتی انداز میں سر انجام نہیں دیناچاہیے ،اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کواپنی نشانی قراردیا ہے، لہٰذااسے اضحوکہ روزگار بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب