سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(332) پہلی بیوی کو مطمئن کرنے کے لیے اس کے ہاتھ میں دوسری کا طلاق نامہ دینا

  • 12323
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1008

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

افتخار نامی ایک شخص نے پہلی بیوی کی موجودگی میں عقد ثانی کاارادہ کیا دوسری بننے والی بیوی نے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط عائد کی، چنانچہ موصوف نے اسے مطمئن کرنے کے لئے پہلی بیوی کے نام طلاق تحریر کر کے دوسری ہونے والی بیوی کے حوالے کردی کہ تم اس تحریر کوخودہی ارسال کردو۔اس نے تحریر کواپنے پاس رکھا ،اس طرح شادی ہوگئی دوسری طرف سے اس نے پہلی بیوی سے کہہ دیا کہ اگر تجھے میر ی طرف سے تحریر ملے تو اسے وصول نہ کرنا یااسے پھاڑدینا ،اس نکاح جدید کے دوسال تین ماہ بعد پہلی بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہو اجواس کے ساتھ رہائش رکھے ہوئے تھی۔ جب دوسری بیوی کواس کاعلم ہوا تواس نے طلاق نامہ مع اپنانکاح نامہ پہلی بیوی کوارسال کردیا ۔جب اس کے والدین کوپتہ چلا تووہ اپنی لڑکی کوافتخار کے گھر سے لے گئے ۔اب اس کاموقف ہے کہ میں نے طلاق نامہ خوشی سے نہیں لکھا تھا بلکہ مجبوری اوردوسری سے نکاح کے لالچ میں تحریر کیا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا یہ طلاق واقع ہوچکی ہے، افتخار کااس دوران پہلی بیوی کے پاس رہنا درست تھا، کیا پہلی بیوی سے رجوع ہوسکتا ہے یانہیں؟ کیونکہ اس نے تینوں طلاق بیک وقت تحریر کردی تھیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں نکاح ثانی کے وقت دین سے ناواقفی کی بنا پر کئی ایک غیرشرعی کام ہوئے ہیں پہلا تو یہ کہ کسی عورت کا پہلی بیوی کوطلاق دینے کا مطالبہ کرناشرعاًدرست نہیں ہے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق واضح طورپر منع کیاہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ ’’کوئی عورت نکاح کے وقت اپنی بہن کی طلاق کامطالبہ نہ کرے تاکہ اس کے برتن کوانڈیل کررکھ دے۔‘‘ [صحیح بخاری ، الشروط :۲۷۲۳]

دوسری روایت میں ہے کہ اسے تووہی کچھ ملے گا جواس کا مقدر ہے۔ (اس لئے مطالبہ طلاق کے بغیر ہی نکاح کرے) [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۵۲]

دوسر اغیر شرعی کام یہ ہے کہ خاوند نے اداکاری کے طورپر طلاق دی ہے، حالانکہ طلاق کامعاملہ انتہائی نزاکت کاحامل ہے وہ یوں کہ اگرکوئی بطور مذاق اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہے تووہ شرعاًنافذ ہوجاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ تین کام ایسے ہیں کہ اگرکوئی سنجیدگی سے کرے یااز راہ مذاق انہیں سرانجام دے وہ بہر صورت منعقد ہوجاتے ہیں وہ نکاح، طلاق اوررجوع ہے ۔ [ابوداؤد، الطلاق :۱۳۸۴]

بنا بریں بیوی کی طلاق صحیح ہے، اگرچہ اس نے دوسری سے نکاح کے لالچ میں تحریر کی ہے ۔واضح رہے کہ طلاق کے وقت عورت کاموجودہونایااسے مخاطب کرناضروری نہیں بلکہ یہ خالص خاوند کاحق ہے وہ جب بھی اپنے اختیارات کواستعمال کرے گا طلاق واقع ہوجائے گی۔ خواہ عورت طلاق نامہ کووصول نہ کرے یا وصول کرکے اسے پھاڑدے ،ایسا کرنے سے طلاق پرکوئی اثر نہیں پڑتا، اسی طرح نکاح ثانی بھی صحیح ہے کیونکہ اس کے لئے پہلی بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے، پھردوسری بیوی کی نکاح کے لئے شرط ناجائز تھی اس کاپوراکرنا بھی ضروری نہیں تھا تاہم خاوند نے اسے پوراکیا ہے۔ طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کردیا، اب رہارجوع کامسئلہ تویہ دوطرح سے ہوسکتا ہے۔ خاونداپنی زبان سے رجوع کرے یا دوسرایہ کہ عملی طورپر وظیفہ زوجیت ادا کرے۔ سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ اس نے طلاق کے کتنے عرصے بعد وظیفہ زوجیت اداکیاہے جس کے نتیجہ میں بچہ پیداہوا ،اگردوران عدت عملی رجوع ہوا ہے توایسا کرنااس کاحق تھا ۔اگرعدت گزرنے کے بعد رجوع کیاتویہ رجوع صحیح نہیں ہے کیونکہ عدت گزرنے کے بعد نکاح ختم ہو جاتا ہے، پھربیوی اس کے لیے اجنبی عورت بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک ایک ہی مجلس میں تین طلاق کہنایاتحریر کرنااس سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے ۔دوران عدت تجدیدنکاح کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے جبکہ عدت کے بعد تجدید نکاح سے رجوع ممکن ہے بشرطیکہ یہ پہلایادوسراواقعہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:349

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ