سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(331) بیوہ ایام عدت کہاں گزارے؟

  • 12322
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-13
  • مشاہدات : 1652

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگرخاوند فوت ہوجائے تو بیوہ ایام عدت کہاں گزارے، اپنے خاوند کے گھریا جہاں وہ اپنے خاوند کے فوت ہونے کی اطلاع پائے، نیزیہ بھی بتایا جائے کہ دوران عدت اپنے خاوند کی قبر پر جاسکتی ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا حل پیش کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت نے جس خاوند کے ساتھ زندگی کے ا یام گزارے ہیں اس کے حق رفاقت و وفاداری اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کاتقاضا یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اس کی بیوی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں گزارے، خواہ وہ مکان تنگ ہو یاتاریک اورکتناہی وحشت ناک کیوں نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت فریعہ بنت مالک  رضی اللہ عنہا کا خاوند گھر سے باہر کسی دوسرے مقام پرقتل کردیا گیا اوراس کامکان انتہائی وحشت ناک مقام پر واقع تھا۔ پھر وہ اس کی ملکیت بھی نہ تھا۔  بیوہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ مجھے والدین اوربہن بھائیوں کے ہاں منتقل ہونے کی رخصت دی جائے تاکہ عدت کے ایام امن وسکون سے وہاں گزارسکوں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے اس گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبرملی ہے یہاں تک کہ عدت کے ایام پورے ہو جائیں۔‘‘    [مسند امام احمد، ص: ۳۷۰،ج ۳]

بعض احادیث میں ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھی رہو ۔    [نسائی ،طلاق:۳۵۵۸]

یعنی کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی ضرورت نہیں ۔

حضرت عمر  اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہما اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے ۔البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا موقف ہے کہ عورت عدت گزارنے کی پابند ہے، خواہ وہ کہیں گزارے ۔[نسائی ،الطلاق:۳۵۶۱]

واضح رہے کہ حدیث میں تو یہ صورت ہے کہ عورت اپنے گھرمیں تھی جبکہ خاوندباہر گیاتھا اوروہیں فوت ہوگیا ،اگرخاوند اپنے گھر میں فوت ہوااوراس کی بیوی اس وقت گھر میں موجودنہ ہو تو اس کے متعلق الفاظ اورحدیث اورحکمت حدیث کاتقاضا یہی ہے کہ ایسی عورت بھی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں پورے کرے ،البتہ اس حکم سے درج ذیل دوصورتیں مستثنیٰ ہیں:

(الف)  اگرعورت خانہ بدوش ہے اورکسی مقام پرپڑاؤ ڈالے ہوئے ہے اگر اس کاخاوند فوت ہوجائے تواس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ چارماہ دس دن اسی طرح ایک مقام پرگزارے بلکہ وہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا اس کے ساتھ ہی اپنے ایام عدت گزارتی رہے گی۔

(ب)  میاں بیوی کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ خاوند کے فوت ہونے کے بعد آمدنی کے ذرائع مسدود ہوگئے جس کی وجہ سے کرایہ کی ادائیگی طاقت سے باہر ہوتو اس صورت میں بھی وہ کم کرایہ والے مکان میں منتقل ہوسکتی ہے ۔

 بعض اہل علم حدیث کے الفاظ ’’جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملے۔‘‘ سے عورت کوپابند کرتے ہیں کہ وہ وہیں ایام عدت گزارے۔ جہاں اسے وفات کی خبر ملی ہے، خواہ وہ کسی کے پاس بطورمہمان ہی ٹھہری ہو ئی ہو۔اس طرح کی حرفیت پسندی اور بے جاپابندی شریعت کی منشا کے خلاف ہے۔

دوران عدت انتہائی ضروری کام کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بھی رات گھر واپس آنا ضروری ہے۔ صورت مسئولہ میں ایام عدت میں خاوند کی قبر پرجانا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ جب عدت کے ایام پورے ہوجائیں تو پھرشریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے خاوند کی قبر پرجانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:348

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ