سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(330) وٹہ سٹہ کا نکاح

  • 12321
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1002

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے خاندان کی دولڑکیوں کانکاح وٹہ سٹہ کے طورپر ہوا بوقت نکاح ایک لڑکی بالغہ تھی اوراس کی رخصتی ہوگئی جبکہ دوسری لڑکی کی رخصتی نابالغہ ہونے کی وجہ سے نہ ہوسکی ۔بڑی لڑکی والوں نے فریق ثانی سے یہ شرط لکھوائی کہ اگرتم نے اپنی لڑکی کی رخصتی نہ کی تومبلغ چالیس ہزار روپیہ ہمیں اداکرناہوگا ۔بڑی لڑکی کے ہاں دوبچے پیداہوئے اور تیسری مرتبہ حاملہ تھی کہ اس کے خاوند نے خودکشی کرلی ۔بعض وجوہات کی بنا پر فریقین میں ناچاقی پیداہوچکی ہے۔ بیوہ کے والدین اپنی لڑکی کی آگے شادی کرنا چاہتے ہیں، جبکہ چھوٹی لڑکی والے اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اورمطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے ہماری لڑکی کوطلاق دوپھراس کی آگے شادی کرو۔بڑی لڑکی والوں کاموقف ہے کہ حسب شرط (جوتحریر شدہ ہے)تم مبلغ چالیس ہزار روپیہ ادا کرو، پھر ہم تمہاری لڑکی کو طلاق دیں گے۔ایسے سنگین حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں معاشرہ میں شریعت سے ناواقفیت کی بنا پر بعض لوگ جاہلانہ رسم و رواج کوبڑی سختی سے تھامے ہوتے ہیں ان میں سے ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ ہے جسے عربی زبان میں نکاح شغار کہاجاتا ہے ۔بلاشہ یہ نکاح دورجاہلیت کی یادگار ہے اور اسلام نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کیا ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دین اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کاکوئی وجود نہیں ہے۔‘‘     [صحیح مسلم ،النکاح :۱۴۱۵]

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح وٹہ سٹہ سے منع فرما یا ہے۔    [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۱۲]

واضح رہے کہ نکاح وٹہ سٹہ ہرصورت میں حرام ہے، خواہ حق مہر رکھاگیا ہویاتبادلہ نکاح کوہی حق مہر قرار دیا گیا ہو۔ان احادیث کے پیش نظر اصولی طورپرصورت مسئولہ میں دونوں نکاح باطل ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے ایک لڑکی کی رخصتی ہوچکی ہے اوراس کے بطن سے اولاد بھی پیداہوئی ہے، نیز اس کاخاوند بھی فوت ہوچکا ہے اس بنا پر احتیاط کاتقاضا یہی ہے کہ اس کے متعلق گنجائش نکالی جائے، البتہ چھوٹی لڑکی جس کاصرف نکاح ہوا ہے ابھی رخصتی عمل میں نہیں آئی ۔اس کے نکاح کو کالعدم اورباطل قراردیا جائے، اس لئے بچی کے والدین فریق ثانی سے طلاق لئے بغیر آگے نکاح کرسکتے ہیں۔اسی طرح بڑی لڑکی کے والدین کاان سے چالیس ہزار روپے کامطالبہ کرنابھی درست نہیں ہے ۔کیونکہ ایسا کرناصریح ظلم ہے جس کے متعلق شریعت اجازت نہیں دیتی ہے، نیزایک حدیث کے مطابق جوشرط کتاب اللہ سے ٹکراتی ہو اوراس کاثبوت شریعت میں نہ ملتاہووہ سرے سے باطل ہوتی ہے۔ اس لئے نکاح کے ساتھ یہ شرط بھی کالعدم قرارپائے گی اگرچھوٹی لڑکی والے طلاق لینے پراصرار کرتے ہیں تو بڑی لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ اسے اپنی عزت کامسئلہ نہ بنائیں بلکہ اپنی لڑکی کاگھر بسانے کے لئے چھوٹی لڑکی کوطلاق دے دیں اور ہر قسم کے مطالبہ سے دستبردار ہوجائیں ۔ ویسے شریعت مطہرہ نے لڑکی کوبالغ ہونے کے بعد یہ اختیار دیاہے کہ اگروہ چاہیے توبچپن میں ہونے والے نکاح کومسترد کردے لیکن یہ خیار بلوغ صرف اس صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے کہ وہ بلوغت کے فوراًبعد نکاح کے متعلق اپنی ناگواری کااظہار کردے ۔یہ اختیار عرصۂ دراز تک کے لئے حاصل نہیں رہتا ۔الغرض چھوٹی بچی کانکاح شغار ہونے کی بناپر کالعدم ہے اوراس کے سرپرست آگے نکاح کرنے کے مجاز ہیں۔ اسی طرح کسی فریق کادوسرے سے رقم وغیرہ کامطالبہ کرنا بھی شرعاًصحیح نہیں ہے۔     [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:347

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ