السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے اپنی بیٹی کے لئے تنسیخ نکاح کامقدمہ دائرکیاتھا عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دیدیا ہے اب کیا ہم اپنی بیٹی کا نکاح کسی دوسری جگہ کرسکتے ہیں؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ نے خاوند کواس بات کاپابند کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کونان ونفقہ اوردیگر ضروریات زندگی فراہم کرے اوراگروہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی اپنے اندرہمت نہیں پاتا تواچھے طریقے سے اسے چھوڑدے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم معروف طریقہ سے ان عورتوں کوگھروں میں رکھویااچھے طریقہ سے انہیں چھوڑدو‘‘۔ [۲/البقرہ:۲۳۱]
بیوی کوتکلیف دینے کی غرض سے گھرمیں روکے رکھنا اور اس کی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے راہ فرار اختیارکرنا کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اورانہیں تکلیف دینے اور ان پرزیادتی کرنے کے لئے مت روکے رکھو‘‘۔ [۲/البقرہ:۲۳۱]
جب خاوند اپنی بیوی کی جائز ضروریات زندگی کوپورانہیں کرتااور نہ ہی اس کے دیگر حقوق اداکرتا ہے اس پر مزیدظلم بایں طور کرتا ہے کہ اسے اپنی زوجیت سے بھی الگ نہیں کرتا توایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے عورت کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے آپ پر ہونے والے اس ظلم کودورکرنے کے لئے عدالتی چارہ جوئی کرے ۔شریعت نے بھی بعض معاملات میں عدالت کویہ اختیار دیا ہے کہ وہ معاملات کی چھان بین کرنے کے بعد تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کرے ۔صورت مسئولہ میں جب عورت کے سرپرست نے عدالت سے رجوع کیا ہے اورعدالت نے اپنے ذرائع کے مطابق تحقیق کرنے کے بعد عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دیا ہے تواب عورت کوحق ہے کہ عدت گزارنے کے بعد وہ اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام باعزت طورپر گزارنے کے لئے نکاح ثانی کرسکتی ہے اوراس کے لیے شرعاًکوئی امر مانع نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب