السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرابیوی سے جھگڑاہوگیا ہے جبکہ وہ چارماہ کی حاملہ تھی میں اسے میکے چھوڑ آیا، پھراس کی غیرموجودگی میں تین بار طلاق طلاق،طلاق کہہ دیا ۔میری بیوی نے یہ الفاظ نہیں سنے ،اس کے لیے عموماًیہ الفاظ استعمال کرتا رہا کہ میں نے اسے فارغ کردیا ہے بعدازاں اس نے ایک بچے کوجنم دیا حالات نے ایسا پلٹاکھایا کہ ہمیں صلح کرناپڑی ۔کتاب وسنت کی روشنی میں اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اپنی بیوی کوطلاق دینے کایہ طریق کار انتہائی غلط اورخلاف شرع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے انسان پراظہار ناراضی فرمایا ہے، البتہ احناف کے نزدیک اس انداز سے دی ہوئی ایک مجلس کی تین طلاق تینوں ہی نافذ ہوجاتی ہیں اورطلاق دہندہ کی بیوی ہمیشہ کے لئے اس پرحرام ہوجاتی ہے جبکہ قرآن وحدیث کے مطابق اس انداز سے دی ہوئی تین طلاق صرف ایک رجعی واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں طلاق کے وقت بیوی حاملہ تھی اورحاملہ کی عدت وضع حمل ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے‘‘۔ [۶۵/الطلاق:۴]
لہٰذا مذکورہ عورت کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہوچکی ہے اب اگربیوی اپنے سابقہ خاوند کے ہاں آناچاہے تونکاح جدیدہوگا کیونکہ عدت ختم ہوتے ہی نکاح بھی ختم ہوچکا ہے۔ تجدیدنکاح کے بغیر رجوع کاموقع ہاتھ سے نکل چکا ہے اگرصلح نئے نکاح سے ہوتی ہے توٹھیک بصورت دیگرابھی سے نیا نکاح کرلیاجائے اور نئے نکاح کے بغیر صلح کرنے کی غلطی پر اظہار ندامت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے مساکین کو صدقہ و خیرات بھی دیا جائے۔آخر میں ہم یہ کہنا اپنافرض سمجھتے ہیں کہ خانگی معاملات میں جذبات میں آکرفیصلے نہ کئے جائیں بلکہ نہایت سنجیدگی اور ذہانت سے ایسے نازک معاملات کونبٹا یاجائے اورشریعت کادامن کسی وقت بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب