السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے شوہر بیرون ملک ہوتے ہیں میں ان کی اجازت سے اپنے والدین کے گھرمیں رہتی ہوں ہم دونوں خوش ہیں مگر جب وہ پچھلے سال پاکستان آئے تومیرے والدین سے کسی ناچاقی کی بنا پر انہوں نے مجھے کہاکہ اگرتم نے دوبارہ مجھے اپنے والدین کے ہاں جانے کے لئے کہاتوسب کچھ ختم ہوجائے گا، پھران کی ناراضی دورہوگئی اورمجھ سے کہا کہ میں نے تم پرجوپابندی لگائی تھی اسے ختم کرتا ہوں مگرمیں سخت پریشان ہوں کہ کہیں خلاف ورزی کی صورت میں ہمارے رشتے پرتوکوئی اثر نہیں پڑے گا ،انہوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ میرے نزدیک سب کچھ ختم ہونے کامطلب یہ تھا کہ اگرتم نے والدین کے ہاں جانے کوکہاتو کچھ عرصہ کے لئے تمہارابائیکاٹ کروں گا ،مگرمیں خوف زدہ ہوں کہ سب کچھ ختم ہونا کہیں طلاق تونہیں ہے۔ براہ کرم میری راہنمائی کریں کہ اگر وہ اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے مجھ سے یہ پابندی ختم کرتے ہیں توکیا میں اس پابندی سے آزادہوسکتی ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قسم کے سوال کاتفصیلی جواب اہلحدیث مجریہ۲۴ ستمبر شمارہ نمبر۳۶ میں شائع ہوچکا ہے دراصل ہم گھریلو عائلی زندگی کے متعلق بہت افراط و تفریط کاشکارہیں ۔قصور کسی کاہوتا ہے لیکن سزاکسی دوسرے کودیتے ہیں۔ صورت مسئولہ میں اختلاف لڑکی کے والدین سے ہوا لیکن سزا لڑکی کودی جارہی ہے کہ اگرتونے والدین کے ہاں جانے کوکہاتوسب کچھ ختم ہوجائے گا ۔ہمارے معاشرہ میں سب کچھ ختم ہونے سے مراد تواپنے گھرکوبرباد کرنا ہے لیکن ’’صاحب ‘‘نے وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد کچھ عرصہ کے لئے بیوی سے بول چال بندکرناہے دلوں کاحال تواللہ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے توظاہری الفاظ اوراس کی وضاحت کے مطابق فتویٰ دینا ہے واضح ہوکہ طلاق کے نافذہونے کے اعتبار سے اس کی دواقسام ہیں :
٭ جوفی الفور نافذ ہو جائے، مثلاً: یوں کہاجائے کہ میں تجھے طلاق دیتاہوں۔
٭ جوفی الفورنافذ نہ ہوبلکہ اسے کسی کام کے کرنے یاچھوڑنے پرمعلق کیاجائے، مثلاً: یوں کہاجائے کہ تونے گھرسے باہرقدم رکھاتو تجھے طلاق ہے۔ اس صورت میں عورت جب بھی گھر سے باہر قدم رکھے گی اسے طلاق ہوجائے گی ،لیکن اگرمعلق طلاق میں خلاف ورزی سے پہلے پہلے اس شرط کوختم کردیاجائے توپھر خلاف ورزی کی صورت میں طلاق نہیں ہوگی۔ کیونکہ پابندی عائد کرنے والے نے خودہی اس پابندی کوختم کردیا ہے۔ صورت مسئولہ میں دوباتیں قابل غورہیں۔ ایک توسب کچھ ختم ہونے کی وضاحت خودپابندی لگانے والے کی ہے کہ اس سے مرادوقتی بائیکاٹ اورکچھ وقت کے لئے بول چال ختم کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس سے قطعی طورپرطلاق دینامراد نہیں ہے۔ اس وضاحت کے بعداگر پابندی نہ بھی ختم کی جاتی توبھی خلاف ورزی کی صورت میں طلاق نہیں ہوناتھی ۔دوسری بات یہ ہے کہ پابندی لگانے والے نے خلاف ورزی سے قبل خود اسے واپس لے لیا ہے اوراسے ختم کردیا ہے اس صورت میں خلاف ورزی کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا، لہٰذاسائلہ خاوند کی طرف سے لگائی گئی پابندی سے آزاد ہے۔
نوٹ:نکاح، طلاق اوروراثت سے متعلقہ سوال کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے ایڈریس یا کم ازکم فون نمبر سے ضرور مطلع کیاکریں تاکہ ہمیں بوقت ضرورت رابطہ کرنے میں آسانی رہے ۔اس کے علاوہ ادارہ ’’اہل حدیث ‘‘کی طرف سے خریداری نمبرکاحوالہ بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر سوال کے جواب میں التوا یاتاخیرہوسکتی ہے ۔ [واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب