سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(321) وٹہ سٹہ بغیر شرائط کے؟

  • 12312
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 928

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی شادی کسی دوسرے شخص کی ہمشیرہ سے ہوئی ۔اب دوسراشخص چاہتا ہے کہ اس کی شادی اپنے بہنوئی کی بہن سے ہوجائے ،اس سے پہلے کسی قسم کی کوئی شرط یا معاہدہ طے نہیں پایا۔کیاایسی صورت میں شادی کرناشریعت میں جائز ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی قسم کی سابقہ شرط کے بغیر آپس میں ایک دوسرے کی ہمشیر ہ سے شادی کرناکوئی جرم نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کی ایک بہترین صورت ہے لیکن عام طورپردیکھا جاتا ہے کہ آبائی رسم ورواج کی پابندی کے لئے ظاہری طورپرکسی مسئلہ کے جواز کاسہارا لے لیاجاتا ہے، لہٰذا اس کی وضاحت کرناانتہائی ضروری ہے ۔ہمارے ہاں بے شمار ایسی رسوم ہیں جوشریعت اسلامیہ کے سراسر منافی ہیں ۔ان میں ایک رسم نکاح وٹہ سٹہ بھی ہے۔ جسے عربی زبان میں ’’نکاح شغار‘‘کہاجاتا ہے۔ دین اسلام میں یہ ناجائز اور حرام ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری فرمایا ہے ارشاد نبوی ہے کہ ’’اسلام میں نکاح وٹہ سٹہ کاکوئی وجودنہیں ہے۔‘‘   [صحیح مسلم ،النکاح :۳۴۶۹]

مذکورہ روایت میں ہی شغارکی بایں الفاظ تعریف کی گئی ہے کہ ’’ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تم اپنی بیٹی کانکاح مجھ سے کر دو میں اپنی بچی کانکاح تجھ سے کردیتا ہوں ۔‘‘یہ تعریف ہمارے ہاں وٹہ سٹہ میں صادق آتی ہے سابقہ شرط کے بغیر تبادلہ نکاح اگرچہ جائزہے، تاہم اختلاف کے وقت منفی اور انتقامی جذبات خودبخود فریقین میں سرایت کرجاتے ہیں۔ چونکہ انجام اورنتیجہ کے لحاظ سے اس طرح کاتباد لہ کوئی مفید چیز نہیں ہے، جیسا کہ تجربات اس کی شہادت دیتے ہیں ۔صورت مسئولہ میں ظاہری طورپر اس میں کوئی قباحت نظرنہیں آتی لیکن اس کانتیجہ شغارجیسا ہوگا۔اصل دارومدار نیت پر ہے اگراس میں کوئی فتورنہیں تویقینا اس طرح کانکاح باعث خیروبرکت ہے کیونکہ دوخاندان آپس میں مل بیٹھنے کاپروگرام رکھتے ہیں۔ اگرنیت صرف جواز کے لئے حیلہ تلاش کرنا ہے تو اس غیر مشروط تبادلہ نکاح سے پرہیز کیاجائے کیونکہ مستقبل میں یہ نکاح کوئی مفید اورثمرآورثابت نہیں ہوسکے گا ۔نکاح کے مسئلہ میں انسان کوانتہائی دوراندیشی سے کام لیناچاہیے ۔کیونکہ زندگی کایہ بندھن صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے یہ کوئی بجلی کابلب نہیں ہے کہ جب ضرورت پڑے تولگالیا جائے اورخراب ہونے پراسے اتاردیاجائے ۔اپنی طرف سے نہایت اخلاص کے ساتھ کوشش کرکے پھر معاملات اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیے جائیں ۔ [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:333

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ