السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ماہ رمضان سے متعلق بعض کیلنڈروں میں ایک خانہ احتیاط کا رکھا جاتا ہے جس کے مطابق فجر سے دس پندرہ منٹ قبل از راہ احتیاط کھانا پینا بند کر دیا جاتا ہے۔ کیا اس قسم کی احتیاط کی سنت سے کوئی اصل ہے یا یہ بدعت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بدعت ہے، سنت سے اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ سنت تو اس کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی تسمعواأذانَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ - فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ» (صحيح البخاري، الصوم، باب قول النبی: لا يمنعنکم من سحورکم اذان بلال، ح: ۱۹۱۸ وصحيح مسلم، الصيام، باب بيان ان الدخول الصوم يحصل بطلوع الفجر، ح: ۱۰۹۲)
’’بے شک بلال رات کو اذان د یتے ہیں، پس تم کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: ’’جب تک فجر طلوع نہ ہو جاتی وہ اذان نہیں دیتے تھے۔‘‘
یہ احتیاط جسے بعض لوگ اختیار کرتے ہیں،دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرض پر اپنی طرف سے اضافہ ہے،اس لئے یہ باطل اور اللہ تعالیٰ کے دین میں تشدد ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ، هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ، هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ» (صحيح مسلم، العلم، باب هلک المتنطعون، ح: ۲۶۷۰)
’’(دین میں) تشدید کرنے والے ہلاک ہوگئے، تشدد کرنے والے ہلاک ہوئے، تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب