سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(317) پہلی طلاق کے چار سال بعد رجوع کرنا

  • 12308
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1699

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست نے اپنی بیوی کوایک سال چارماہ قبل کاغذ پرتین بار طلاق لکھ کربھیج دی، اس کے بعد تحریری یازبانی کوئی طلاق نہیں دی اب وہ رجوع کرناچاہتا ہے، کتاب وسنت کے حوالے سے راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں آج کل علم وعمل کے اعتبار سے دینی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ صبرو تحمل کے بجائے غصہ و اشتعال کا دور دورہ ہے۔ ذہنی پریشانیاں اس پر مستزاد ہیں۔ معمولی معمولی رنجش کی وجہ سے اپنی بیوی کوطلاق دے دینا عام معمول بن چکا ہے۔ دین سے ناواقفیت کی بنا پر اکٹھی تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں، پھرجب غصہ دورہوتا ہے اورجذبات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں تو مسئلہ پوچھنے کی ضرورت پیش آتی ہے، حالانکہ بیک وقت تین طلاق دیناشریعت میں انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے ڈالیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناراضی کے عالم میں فرمایا: ’’تم نے میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلناشروع کردیا ہے۔‘‘ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خفگی کودیکھ کرایک جاں نثار نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگرآپ مجھے اجازت دیں تومیں اسے قتل نہ کردوں۔     [نسائی، الطلاق:۳۴۳۱]

تاہم اس انداز سے طلاق دینے میں ایک رجعی طلاق ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے دورخلافت اورعمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی عہدحکومت میں ایک مجلس کی تین طلاق کوایک ہی شمار کیاجاتا تھا، پھرحضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’جس کام میں لوگوں کوغوروفکر کرنے کی مہلت دی گئی تھی اس میں انہوں نے جلدبازی سے کام لیناشروع کر دیا ہے، اس بنا پر ان تینوں کونافذ کر دینا چاہیے، چنانچہ انہوں نے تینوں کوجاری کردیا۔‘‘[صحیح مسلم ، الطلاق:۳۶۷۴]

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ  نے علامہ اسماعیلی رحمہ اللہ  کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کایہ اجتہادی اقدام مصالح امت کے لئے تھا، تاہم حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے اپنی عمر کے آخر حصہ میں اس پرافسوس وندامت کااظہار کیااورخواہش فرمائی کہ کاش! میں اس طریقہ سے طلاق دینے کو حرام ٹھہرادیتا ۔  [اغاثۃ اللہفان، ص: ۳۰۲،ج ۱]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں بیک وقت تین طلاق دینے کوایک رجعی شمار کیا جاتا تھا، جیساکہ حضرت رکانہ  رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوایک ہی سانس میں تین طلاقیں دیدیں، پھرانہیں بہت غم اورافسوس لاحق ہوا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تو نے کس طرح طلاق دی تھی عرض کیا کہ میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالی ہیں آپ نے فرمایا کہ ’’یہ توایک طلاق ہے اگرچاہوتوبیوی سے رجوع کرکے اپنا گھر آباد کر لو۔‘‘ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔    [مسند امام احمد، ص: ۲۶۵،ج ۱]

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق یہ حدیث نص صریح کی طرح ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کی اورکوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔     [فتح الباری، ص: ۳۶۲،ج ۹]

ان دلائل کی بنا پر ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاق ایک ر جعی ہوتی ہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ہم نہیں جانتے کہ

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کسی شخص نے ایک ہی وقت ،ایک ہی سانس سے تین طلاقیں دیدی ہوں توآپ نے انہیں نافذ کردیا ہو۔‘‘    [فتاویٰ ابن تیمیہ، ص: ۱۲، ج۳۳]

طلاق رجعی کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کاحق ہے، پھر اس رجوع کی دوصورتیں ہیں :

1۔          دوران عدت تجدیدنکاح کے بغیر ہی رجوع کیاجاسکتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگران کے خاوند اس مدت میں آبادی کی نیت سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے پرآمادہ ہوں تووہ انہیں زوجیت میں واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۲۸]

واضح رہے کہ یہ رجوع پہلی یا دوسری طلاق کے ساتھ مشروط ہے ۔تیسری طلا ق کے بعد حق رجوع ختم ہوجائے گا ۔

2۔عدت گزرجانے کے بعد تجدیدنکاح سے رجوع ممکن ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اورجب عورتوں کوطلاق دے دواوران کی عدت پوری ہونے کوآجائے توانہیں اپنے پہلے خاوند وں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقہ سے آپس میں نکاح کرنے پرراضی ہوں۔‘‘    [۲/البقرہ :۲۳۲]

لیکن اس تجدید نکاح کے لئے چارچیزوں کا ہونا ضروری ہے، انہیں پورا کئے بغیر نکاح نہیں ہو گا۔

1۔  ازسرنوحق مہرکی تعیین۔                      2۔   گواہوں کی موجودگی ۔

3۔  سرپرست کی اجازت۔                        4۔   عورت کی رضامندی ۔

صورت مسئولہ میں تین طلاق اکٹھی تحریر کی گئی ہیں۔ کتاب وسنت کے مطابق یہ ایک رجعی طلاق ہے لیکن اس تحریری طلاق پرایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اس لئے اب تجدیدنکاح سے دوبارہ گھر آبادکیاجاسکتا ہے اوریہ نکاح اسی طلاق دہندہ سے ہوگا کسی قسم کے بدنام زمانہ حلالہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایساکرنا بے شرمی اوربے حیائی ہے۔

واضح رہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کاایک رجعی طلاق کاہونا اس شخص کے لئے ہے جوکتاب وسنت پرعمل کوہی اپنے لئے  ذریعہ نجات خیال کرتا ہولیکن اگرصرف مطلب برآری کے لئے ایساکرناچاہتا ہے تویقینایہ سہولت اس کے لئے سودمند نہیں ہوگی کیونکہ یہ دنیوی مارکیٹ نہیں ہے کہ جہاں سوداسلف سستا ملے وہاں سے لے لے ،دین کے لئے ایسی حیلہ گری کامیاب نہیں ہوسکتی،  اس لئے طلاق دہندہ کو چاہیے کہ وہ کتاب وسنت پرعمل کرنے کاعزم کرتے ہوئے اپنی بیوی سے مذکورہ شرائط کے ساتھ دوبارہ نکاح کر لے۔    [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:330

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ