السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیٹی امتحان میں باربار فیل ہونے کی وجہ سے ذہنی توازن خراب کربیٹھی ایک سال تک اسی بیماری کاشکار رہی، لیڈی ڈاکٹر کے کہنے پر اس کانکاح کردیاگیا اس کے ذہنی توازن کے بگڑنے کا جب سسرال والوں کوعلم ہوا تووہ اسے میرے پاس چھوڑ گئے،اب لڑکی صحت یاب ہے کیااس کاپہلا نکاح صحیح تھا یااب تجدید نکاح کی ضرورت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال سے واضح ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت لڑکی کاذہنی توازن صحیح نہیں تھا اس حالت میں شریعت نے انسان کوبے اختیار اورغیرمکلف قرار دیا ہے، لہٰذانکاح کے وقت اس کے ایجاب کی کوئی حیثیت نہیں جونکاح کے لئے بنیادی شرط ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین شخص مرفوع القلم ہیں: دیوانہ تاآنکہ وہ باشعور ہو جائے، سونے والایہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچہ تاآنکہ بالغ ہو جائے۔‘‘ [ابوداؤد، الحدود:۴۴۰۳]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ پاگل عورت پرحدجاری کرنے کاحکم دیاتوحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’پاگل عورت تومرفوع القلم ہے تاآنکہ وہ باشعور ہو جائے۔‘‘ [صحیح بخاری، الحدود: ۲۲ تعلیقاً]
ان احادیث کے پیش نظر لڑکی بے اختیار اورغیرمکلف ہے اب اگراس کے والدیااس کی عدم موجودگی میں کسی دوسرے سرپرست نے لڑکی کی طرف سے ایجاب کی ذمہ داری کواٹھایا ہے تونکاح بالکل صحیح ہے، جیسا کہ نابالغ بچے کے نکاح کے وقت کیا جاتا ہے، لہٰذا پہلانکاح صحیح ہے کسی قسم کے نئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے اگرسسرال والوں کواس نکاح میں شک وشبہ ہے تولڑکے سے دوبارہ نکاح پڑھا دیاجائے خاص طورپر جبکہ اب صحت یاب اورباشعور ہے تاکہ آپس میں مل بیٹھنے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔[واللہ اعلم ]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب