سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(308) غصہ کی طلاق کا شریعت میں حکم

  • 12299
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2472

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے شدیدغصہ کی حالت میں اپنی بیوی کوکئی بار طلاق کے لفظ کہے لیکن غصہ کی بنا پر اسے پتہ نہیں رہا کہ میں کیاکہہ رہا ہوں، البتہ ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اس نے کہا ’’میں اپنی منکوحہ کوطلاق دیتا ہوں اورکچھ شواہد اس بات پر ہیں کہ اس نے یوں کہا: میرے گھرسے نکل جا، بصورت دیگر میں طلاق دے دوں گا ،بہرحال غصہ اس قدر شدید تھا کہ خاوند کوہوش نہ رہا کہ میں کیا کہہ رہاہوں اور کیا کر رہا ہوں، برائے مہربانی ہماری اس الجھن کو دور کر دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت غصہ میں دی ہوئی طلاق کے واقع ہونے یانہ ہونے کے متعلق علمائے امت کااختلاف ہے بعض کاخیال ہے کہ غصہ میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔کیونکہ حدیث میں ہے کہ بحالت اغلاق نہ طلاق ہوتی ہے اورنہ ہی غلام کوآزادی ملتی ہے۔[ابو داؤد، الطلاق: ۲۱۹۳]

اس حدیث میں آمد لفظ ’’اغلاق ‘‘کامعنی امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ سے غضب منقول ہے۔ یعنی بحالت غصہ طلاق دینااور غلام کو آزادکرناشرعاًکوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔امام ابوداؤد رحمہ اللہ  نے اغلاق کایہی معنی کیاہے فرماتے ہیں ’’الاغلاق اظنہ فی الغضب‘‘ ابوداؤد کے بعض نسخوں میں بایں الفاظ عنوان قائم کیاگیا ہے: ’’باب الطلاق علی غضب‘‘یعنی ’’بحالت غصہ طلاق دینے کا بیان۔‘‘ ان حضرات کے نزدیک غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی ۔جبکہ بعض دوسرے علمائے کرام کے ہاں بحالت غصہ دی ہوئی طلاق نافذہوجاتی ہے ۔ان کاموقف یہ ہے کہ رضا ورغبت اورخوشی سے کوئی بھی طلاق نہیں دیتا بلکہ حالات خراب ہونے پر غصہ کی حالت میں ہی طلاق دی جاتی ہے۔ اگر غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کا اعتبار نہ کیا جائے تو کوئی بھی طلاق مؤثر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ہمیشہ طلاق حالت غصہ میں ہی دی جاتی ہے ۔امام ابن تیمیہ اورامام ابن قیم رحمہما اللہ نے اس موضوع پرذراتفصیل سے گفتگو کی ہے فرماتے ہیں کہ غصہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں:

1۔  ابتدائی حالت: یہ وہ حالت ہے جس میں غصہ تو ہوتا ہے لیکن انسان کے ہوش وحواس قائم رہتے ہیں ،اس حالت میں دی ہوئی طلاق بالاتفاق ہوجاتی ہے ۔

2۔   انتہائی حالت: یہ وہ حالت ہے جس میں شدید غصہ کی وجہ سے انسان کے ہوش وحواس قائم نہیں رہتے ۔اسے کوئی علم نہیں ہوتا کہ میں کیاکہہ رہاہوں یاکیا کررہاہوں ۔اس حالت میںدی ہوئی طلاق بالاتفاق نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک جنونی کیفیت ہے اور دیوانگی کی ایک صورت ہے اورمجنون اوردیوانہ مرفوع القلم ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ’’تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے، ان میں سے ایک مجنون بھی ہے ۔‘‘     [مسند امام احمد:۶/۱۰۲]

3۔  درمیانی حالت :یہ وہ حالت ہے کہ غصہ کی وجہ سے عقل بالکل توزائل نہیں ہوتی، تاہم یہ غصہ اس کی قوت فکر پراس حدتک  اثراندازضرورہوتا ہے کہ اس دوران کی ہوئی کوتاہی پربعد میں نادم ہوتا ہے۔     [زادالمعاد، فصل طلاق فی الاغلاق ]

                آخری صورت محل اختلاف ہے ۔امام ابن تیمیہ اورا مام ابن قیم رحمہما اللہ ودیگر حنابلہ کے نزدیک اس درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔ ان کی دلیل مذکورہ بالاحدیث میں ہے، جبکہ دوسرے اس درمیانی حالت میں دی ہوئی طلاق کونافذ خیال کرتے ہیں ۔ہمارے نزدیک موخرالذکر علماکاموقف ہی صحیح ہے ۔کیونکہ طلاق عموماًغصہ میں دی جاتی ہے اوردرمیانی حالت میں غصہ دیوانگی کی حد تک نہیں پہنچتا ۔اس حالت میں طلاق دہندہ کومرفوع القلم قرار دیاجائے ۔لہٰذا اگرغیظ وغضب اس حدتک پہنچ جائے جوانتہائی حالت میں بیان ہوا ہے کہ انسان اپنے آپ سے باہر ہوجائے اوراس کے ہوش وحواس بالکل قائم نہ رہ سکیں ۔یہاں تک اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میرے منہ سے کیانکلا ہے اوراس کا انجام کیاہوگا ۔توایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی ۔مگر غصے کی یہ انتہائی حالت شاذونادرہی ہوتی ہے اورایسا بہت کم ہوتا ہے ۔

اس تفصیل کے پیش نظر جب صورت مسئولہ کے ظاہری الفاظ کودیکھاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ طلاق دہندہ طلاق دیتے وقت انتہائی غصے کی حالت میں تھا ۔اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔لیکن آیا وہ حقیقتاً ایساہی تھا تویہ طلاق دینے والا ہی بہتر جانتا ہے ۔لہٰذا اسے خود سوچنا چاہیے کہ میں طلاق دیتے وقت کس حالت میں تھا ۔حقیقت حال کے خلاف الفاظ تحریر کرکے فتویٰ لے لینے سے حرام شدہ چیز حلال نہیں ہوگی ۔حلال وحرام کے معاملہ میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔اگرواقعی طلاق دہندہ نے غصے کی انتہائی حالت میں طلاق دی ہے اس کے ہوش وحواس قائم نہیں تھے تواس صورت میں سرے سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگرغصہ کی ابتدائی یادرمیانی حالت ہے توطلاق واقع ہوجائے گی ۔بالخصوص جبکہ وہ کئی بارایساکرچکا ہے، جیسا کہ سوال میں ذکر ہے تووہ اپنی بیوی سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھوبیٹھا ہے ۔بشرطیکہ طلاق دینے کامعاملہ مختلف مواقع میں پیش آیا ہو ۔اب عام حالت میں صلح کی کوئی صورت نہیں ہے اوراگر ایک ہی مجلس میں ایساہوا ہے توایک طلاق ہوگی اورعدت کے اندراندر رجوع ہوسکے گااگر دو دفعہ ایساہواتوبھی رجوع کاحق باقی ہے ۔لیکن تیسری دفعہ ایساکرنے سے رجوع کاحق ختم ہوجاتا ہے ۔     [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:324

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ